نیوٹن کا تیسرا قانون اور حکومت

Newton

Newton

نیوٹن نے سولھویں صدی عیسوی میں ایک قانون دریافت کیا تھا جس کے مطابق ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے عمل اور ردِ عمل magnitude کے اعتبار سے آپس میں برابر لیکن سمت میں مخالف ہوتے ہیں۔ میری ایک ذاتی رائے ہے کہ ملک کا بادشاہ جو بھی ہو اُسے نیوٹن کا یہ قانون لازمی یاد رکھنا چاہیے اور اسے اپنے اوپر لاگو بھی کرنا چاہیے۔ آپ کو زندگی میں ایسی کئی مثالیں ملیں گی جن سے نیوٹن کا یہ تیسر ا قانون ثابت ہوتا ہے۔ آپ کوئی بھی کام کرتے ہیں آپ کو اس کام کا لازمی رزلٹ ملنا ہوتا ہے۔ اب یہ آپ کے عمل پہ منحصر ہے کہ آپ کو رزلٹ اچھا ملتا ہے یا برا۔۔ اچھا کام کریں گے تو اچھا رزلٹ اور اگر برا کام کریں گے تو اس کا رزلٹ بھی برا ملے گا۔ جس طرح ایک ان پٹ کی آئوٹ پٹ ہوتی ہے اسی طرح ہر عمل کا ردِ عمل بھی ہوتا ہے۔ اگر آپ مہنگائی بڑھا دیتے ہیں تو اس کا ردِ عمل بھی کچھ اسی مناسبت سے ہوگا۔ جس سے لوگوں کا دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

اس مہنگائی کے ردِ عمل میں پوری قوم متاثر ہوتی ہے، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ غریب پر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے اور امیر پر اس کا اثر کم پڑتا ہے۔ جب حکمران کوئی پالیسی تیار کرتے ہیں تو انھیں اس بات کا خیال ہونا چاہیے کہ یہاں امیر اور غریب دونوں موجود ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری پالیسی سے صرف ایک ہی طبقے کو فائدہ ہوگا جو امیر ہوں گے اور غریب اس سے تنگ ہونگے۔ اگر امیر اور غریب طبقوں کو اس پالیسی کا برابر فائدہ نہیں ہوتا تو اس کا عوام کی طرف سے ردِ عمل بھی برا ہو گا۔ آج لوگ جب سڑکوں پر نکل کر احتجاج کی صورت اختیار کرتے ہیں تو اس کی اصل وجہ حکمرانوں کی طرف سے کیا گیا ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے لوگ احتجاج پر اتر آئے۔

امریکہ میں حکومتی بجٹ جب منظور نہ ہو سکا تو ان کے فیڈرل ملازمین نے Shut down کا اعلان کر دیا۔ یہ وہ Reaction تھا جو حکومت کے ایک غیر منصفانہ فیصلے کی وجہ سے عوام کی طرف سے سامنے آیا۔ اس طرح یہ ایکشن اور ری ایکشن دونوں طرف سے مخالفت پیدا کر دیتا ہے جس کی وجہ سے دونوں طرف بگاڑ پیدا ہونے سے ملک کو کئی نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Inflation

Inflation

اصل میں ان اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے، اگر نیت صحیح ہے تو اعمال بھی اچھے ہوں گے اور اگر نیت صحیح نہیں تو اعمال بھی صحیح نہیں ہوں گے اور اسی طرح ردِ عمل بھی اعمال کی نوعیت کے مطابق ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر عوام بے بس، مجبور، غربت زدہ اور تکالیف کی ماری ہے تو گویا اس کے اعمال ٹھیک نہیں ہیں۔ جی بالکل ۔ہم نے جس طرح کے حکمرانوں کو ووٹ دیئے آج ہمیں اسی طرح کا رزلٹ مل رہا ہے۔ ہم نے ووٹ غلط بندے کو دیئے ہمیں اس کے غلط اور بھیانک نتائج بھگتنا پڑ گئے۔ روز بہ روز کوئی نہ کوئی نئی ریٹ لسٹ متعارف ہو رہی ہوتی ہے جو کہ سابقہ ریٹ لسٹ سے دو دانے اوپر ہوتی ہے۔ پھر عوام چیختی چلاتی ہے اور کوئی صدا نہیں سنتا کیوں کے حکومت بھی ڈھیٹ ہو گئی ہے اور عوام کو بھی جان چکی ہے کہ یہ صرف چیخنے چلانے والی قوم ہے ان میں وہ مصر والوں جیسی بات نہیں۔ پارلیمنٹ تک جا کر خالی ہاتھ واپس آجاتی ہے۔ ملک کو موجودہ معاشی صورتِ حال سے نکالنے کے لیے اس طرح کی عوام کو ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے ٹیکس اور مہنگائی کی صورت میں پیسہ اینٹھا جاتا ہے لیکن پانچ سال دور جمہوریت کے بعد بھی ملک کی حالت وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ یہ اس ووٹ کے ایکشن کا ری ایکشن ہے جو ہم نے خود اپنے لیے چنا اور جب حکومت سمجھتی ہے کے ان ٹیکسوں اور مہنگائیوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھر سکتا تو پھر IMF کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اور یہ بوجھ بھی عوام کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے کیوں کہ IMF کی شرائط میں ٹیکس بڑھانے کی شرط سرِ فہرست ہوتی ہے۔ جس سے مہنگائی اور بڑھ جاتی ہے۔

عوام پھر سے سراپا احتجاج نظر آنے لگتے ہیں۔ پر اب کیا ہو سکتا ہے ہم نے جو بویا وہی کاٹنا ہے۔ جیسا ایکشن ویسا ری ایکشن۔ عوام کو حکومت کا یہ بوجھ اب برداشت کرنا پڑے گا کیوں کہ ہم میں وہ عقابی روح نظر ہی نہیں آ رہی کہ ہم کچھ وقت کے لیے مصر ہی بن جائیں۔ اس لیے عوام کو اپنے جیب خرچ سے کچھ حکمرانوں کو دینا پڑ ے گا تا کہ ان کی حکومت قائم و دائم رہے۔ کیوںکہ حکومت عوام سے بھی زیادہ غریب نظر آرہی ہے۔ اس لیے عوام کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ حکومت کی مدد کرے۔

اب مسئلہ یہ کہ ہم اس صورتحال سے باہر کیسے نکلیں؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ نیت کو Repair کرنا ہوگا ۔ ایک اچھی نیت ڈی ویلپ کرنی ہوگی۔ جس سے ہمارے اعمال بھی درست ہونگے اور ان کا رزلٹ بھی بالکل ویسا ہی آئے گا جیسا آپ نے ایکشن لیا ہوگا۔ تو سب سے پہلے حکمرانوں کا یہ کام بنتا ہے کہ وہ اپنی اپنی نیتیں ٹھیک کر لیں۔ عوام خود بخود ٹھیک ہو جائے گی۔میاں صاحب کی نیت تھی تو وہ الیکشن میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اور حکومت بنانا ان کا مشن تھا ان کی نیت میں تھا تو انھوں نے حکومت بنا لی۔ زرداری صاحب نے عوام کے نہ چاہتے ہوئے بھی پانچ سال کا جمہوری دور مکمل کیا۔ کیوں کہ زرداری صاحب چاہتے تھے کہ وہ اپنا جمہوری دور مکمل کریں گے۔ اب اگر بات کی جائے انسان کی فلاح و بہبود کی یا کسی نئے پروجیکٹ کی جو خالصتاً عوام کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہو تو میرے خیال میں میں وہ بھی اسی طرح با آسانی مکمل ہو سکتے ہیں یا اسی طرح عوامی فلاح و بہبود کو فروغ مل سکتا ہے جس طرح ایک حکومت عوام کے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا جمہوری دور مکمل کر جاتی ہے۔ بات صرف نیت کی ہے اور اچھی نیت کی۔ ہمارے ملک میں تمام بحران اور تمام برائیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ اگر ہماری حکومت ایک مسمم ارادہ کر لے ایک پکی اور نیک نیت کر لے کہ ہم نے ان مسائل کو ختم کرنا ہے تو یقینا ایک وقت ضرور آئے گا کہ ہمارے ملک میں تمام بحرانوں، تمام مسائل اور تمام برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔اب نیت کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ نیت کو پورا کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیے جائیں اور ان پر درست طریقے سے کام کیا جائے۔

Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

چونکہ حکومت کی نیت ٹھیک ہوگی اس لیے وہ کام بھی ٹھیک کرے گی۔ اور پھر وہ وقت دور نہیں جب ایک اچھا رزلٹ سامنے آئے گا اور یہ رزلٹ عوام کی حمایت کی صورت میں ملے گاپھر عوام بھی حکومت کا ساتھ دے گی اور حکومت کی طاقت بن جائے گی اور حکومت کو ایک اور جمہوری دور دینے کے لیے بھی کوشش کرے گی اور اس کے لیے حکومت کو کسی الیکشن Campaign کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی کیوں کہ عوام حکومت کی طاقت بن چکی ہو گی۔ اور ایسا تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب حکمرانوں کے اعمال اور اقدامات اچھے ہونگے ورنہ نتیجہ اس کے بر عکس بھی ہو سکتا ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف کے سابقہ پانچ سالوں ہی نے ن لیگ کو الیکشن میں کامیاب کرایا۔ ان کے کاموں کی ہی وجہ سے آج میاں صاحب فیڈرل گو رنمنٹ بنا پائے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سابقہ پانچ سالہ جمہوری دور کو دیکھتے ہوئے عوام نے انہیں اس بار منتخب نہیں کیا۔ جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا کو ہی دیکھ لیںاس کی عوام آج بھی اسے اچھے لفظوں میں یاد رکھتی ہے۔ ان کی جد و جہد اور ان کے اندر موجود عوامی بھلائی کی صلاحیتوں کی وجہ سے جنوبی افریقہ کی عوام انہیں آج بھی اپنا پیشوا مانتی ہے۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں اپنے ملک کے بانی اور مسلمان لیڈروں کو ہی دیکھ لیں جنہوں نے عوام کی بھلائی کے لیے اپنی جانوں تک کی قربانی دے دی جس کی وجہ سے انہیں آج تک یاد رکھا جاتا ہے اور انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ عوام کایہ ردِ عمل مسلمانوں کے کیے جانے والے اقدامات کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح طالبان آج ہمارے لیے دردِ سر کیوں بنے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہی امریکہ ہے۔ اگر کوئی آپ کا گھر اجاڑ دے تو کیا آپ اسے چھوڑیں گے۔ اصل میں طالبان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ کابل میں طالبان کی حکومت پر امریکہ نے جب حملہ کیا تھا تو اس وقت سے آج تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف طالبان لڑ رہے ہیں اور اسی وجہ سے طالبان ہمیں بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ ابھی تک امریکہ کو اس جنگ میں کامیابی نہیں ملی۔ امریکہ نے غلط قدم اٹھایا اور اج اسے نتائج بھی غلط بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ اسے اس جنگ میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے امریکہ میں غربت کی شرح بڑھ رہی ہے۔ کیوں کہ امریکہ بجٹ کا ایک خطیر حصہ اپنے دفاع اور اس قسم کی جنگوں ک لیے صرف کرتا ہے اور اس طرح عوام کو ریلیف ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کے حکمرانوں کی طرف سے کیے گئے ایسے اقدامات سے عوام کا ری ایکشن کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ ملک میں لوگوں کو بے جا قتل کیا جائے انہیں ان کے حق سے محروم رکھا جائے تو انہوں نے مجبوراً طالبان ہی بننا ہے۔ ہم ان تمام مسائل سے اس وقت چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں جب ہماری حکومت درست سمت میں کوئی فیصلے کرے گی۔ جن کا مقصد صرف اور صرف ملک اور اس کی عوام کی بھلائی ہوگا۔ حکومت کو عوام کے لیے ریلیف قائم کرنا ہو گا اور سب سے بڑا ریلیف مہنگائی سے نجات ہے۔

آج ہمارے ملک میں روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے ہی مہنگائی بڑھ رہی ہے ہمیں معاشی صورت حال کو بہتر بنانا ہوگا اور یہ صورت حال عوام کے پیسوں سے نہیں بلکہ حکمرانوں کے کیے گئے ایسے اقدامات سے ہو سکتی ہے جس سے بیروزگاری کا خاتمہ ہو سکے۔ جب بیروزگاری کا خاتمہ ہو جائے گا۔ مہنگائی بھلے وہیں رہے مگر اس کا اثر کم ہو جائے گا اس مہنگائی کا ایفیکٹ عام بندے پہ کم پڑے گا۔ حکومت کا سب سے پہلا قدم بے روزگاری کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ جو کہ صرف حکومت کی ہی بدولت ایسا ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو بدلے میں عوام حکومت کا ساتھ دے گی، لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر وہی سڑکیں ہونگی وہی پارلیمنٹ ہوگی جہاں عوام سراپا احتجاج ہوگی۔ اسی طرح کیے گئے حکومتی کام عوام کو اچھے یا برے ردِ عمل پر مجبورکرتے ہیں۔ ایک مشہور ضرب المثل ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، نیوٹن کے تیسرے قانون کو بھی ثابت کرتی ہے۔ نیوٹن کا یہ قانون حکمرانوں کو یاد کر لینا چاہیے۔ انہیں یہ جان لینا چاہے کہ عوام کہاں خوش ہوتی ہے یا ہم کیا کریں جس سے عوام کو ریلیف مل جائے۔ جس طرح اچھے اعمال ایک انسان کو اچھا بنا سکتے ہیں اسی طرح حکومت کے اچھے کام اچھے اقدامات عوام کی فلاح و بہبود ان کی روز مرہ زندگی بہتر بنا سکتے ہیں لیکن اگر اسی طرح مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن جیسے ناسوروں کا سلسلہ رہا تو میاں صاحب آ پ کو یہ جان لینا چاہیے کہ مہنگائی تو ویسے ہی انسان کی کمر تور دیتی ہے۔ اور بیروزگاری انسان کی عقل ختم کر دیتی ہے جس سے انسان کے اندر اپنے آپ کو Develop کرنے کی ارتقائی صلاحیتیں آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہیں اور پھر اس طرح کے کئی لوگ مل کر کمیونٹی بنالیتے ہیں جس سے ایک پسیماندہ علاقہ اور معاشرہ جنم لیتا ہے اور جہاں تک کرپشن کی بات ہے تو کرپشن انسان کے اند محبت و اخوت اور بھروسہ ختم کر دیتی ہے جیسا کہ آج ہمارے ملک میں صورت حال بنی ہوئی ہے۔ ملک کا ایک خطیر حصہ بلکہ یوں کہنا بجا ہوگا کہ سارا ملک کرپشن کی ضد میں ہے اور یہی کرپشن نتیجے کے طور پر ایک انسان کو دوسرے انسان سے دور کرتی جا رہی ہے۔ اصل میں کرپشن بیروزگاری کی ہی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، یا جب حق دار کو اس کا حق نہ دیا جائے یا غریبوں کا استحصال کیا جائے تو ایسی صورتحال میں کرپشن جنم لیتی ہے۔ گویا کرپشن ، غربت اور بیروزگاری کا ردِ عمل ہے یعنی رزلٹ ہے یہی بیروزگاری ہی تمام معاشرتی مسائل کا موجب ہے۔

Corruption

Corruption

حکمران اگر بیروزگاری پر قابو پا لیتے ہیں تو ردِ عمل کے طور پر مہنگائی کا اثر عوام پر کم پڑے گا اور اسی طرح معاشرہ بھی بہتر ہو گا کرپشن بھی اسی نسبت سے کم ہوگی لیکن اگر یہی صورتھال ویسی کی ویسی رہی جس طرح آج ہمارے ملک میں بنی ہوئی ہے تو ہمیں پہلے سے بھی کہیں زیادہ برے نتائج بھگتنا پڑیں گے اور حکومت کو عوامی ردِ عمل کے باعث گھر کی راہ لینی پڑے گی جس طرح سابقہ حکومت کے ساتھ ہوا۔ حکومت کو تاریخی جمہوری دور گزارنے کے لیے نیوٹن کے اس قانون کو مدِ نظرکر درست سمت میں ملک کی بھلائی کے لیے اقدامات کرنے ہونگے۔ غلط اور صحیح قدم کا درست احاطہ کرنا ہوگا۔ اور اس بات کو بغور یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارا کوئی قدم کس حد تک عوام پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور اس کے رزلٹ میں عوام ہمیں پھولوں کے ہار پہنائیں گے یا پھر اس کے بر عکس صورتحال ہوگی۔ یہ چیدہ چیدہ باتیں حکمرانوں کے کارناموں کو تاریخی موڑ دے سکتی ہیں اور اس ملک کو بھی ایک خوشحال ملک بنانے مین بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اگرچہ ان تمام کاموں اور ان کے رزلٹ کو ذہن میں رکھا جائے۔ خدا اس ملک کو قائم و دائم رکھے۔ آمین

تحریر : ارشد محمود