ٹی ٹی پی کی خودکشی

Peshawar Incident

Peshawar Incident

تحریر : فاروق اعظم
آرمی پبلک اسکول پشاور میں وقوع پذیر ہونے والے سانحے نے پتھر دل انسانوں کی آنکھیں بھی پرنم کردی ہے۔ ہر مکتبہ فکر اس سانحے کو درندگی سے تشبیہ دے رہا ہے۔ یقیناََ دہشت گردوں کا مذکورہ اقدام اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ مقام حیرت ہے کہ تحریک طالبان مہمند ایجنسی کے امیر عمر خراسانی نہ صرف اس سانحے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، بلکہ اسے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق بھی قرار دے رہے ہیں۔ پشاور کے مذکورہ اسکول میں درندگی کا مظاہرہ کرنے والے دہشت گرد اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں، جو طویل عرصہ سے پاکستان میں عسکری کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ماضی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دراصل اس تحریک نے جذبات اور انتقام کی آمیزش سے تشکیل پایا ہے۔ بعد کے ادوار میں اس تحریک نے شعوری یا لاشعوری طور پر دشمن قوتوں کی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

پاکستان کو محاذ جنگ بنانے میں جہاں دشمن قوتوں کی سازشیں کارفرماں ہیں، وہیں پر ہماری حکومتوں کے عجلت پسندانہ فیصلے بھی اس الائو کو بھڑکانے کا سبب بنے ہیں۔ جب افغانستان پر امریکی افواج نے گولہ باری کی اور کشت و خون کا بازار گرم کیا، تو ایک طرف افغانوں نے اس جارحیت کے خلاف مزاحمت کی اور دوسری طرف پاکستان کے قبائلی علاقوں سے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر غیور قبائلی، افغانوں کی مدد کے لیے امریکا کے خلاف صف آراء ہوئے۔ جب افغانستان میں امریکی افواج کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، تو امریکا نے پاکستان پر دبائو ڈالا کہ اپنے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کیے جائیں۔

یہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں سب جانتے ہیں کہ امریکا کے اس خطے میں قدم رکھنے سے پہلے یہاں خودکش بمباروں کا وجود تھا اور نہ ہی اس قدر بڑے پیمانے پر بم دھماکوں کی گونج۔ پاکستان کے سابق صدر و آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف امریکا کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پاکستان کے لیے ایک نئی مشکل پیدا کرنے کا سبب بنے۔

Pak Army

Pak Army

2004ء میں وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز ہوا۔ اس کے دو سال بعد ہی 2006ء میں باجوڑ ایجنسی کے ایک دینی مدرسے پر امریکا نے بمباری کی، جس کے نتیجے میں معصوم بچوں سمیت بڑی تعداد میں قبائلی شہید ہوئے۔ اس وحشیانہ حملے پر امریکا سے بازپرس کی بجائے پاکستان نے اس حملے کو خود سے منسوب کیا۔ اس کے اگلے ہی سال اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن ہوا۔ پے در پے ان واقعات کے رونما ہونے سے حکومت اور فوج کے خلاف نفرت کی فضا بننے لگی۔ جس کے نتیجے میں سوات سمیت فاٹا کے تقریباََ تمام ایجنسیوں میں طالبان حکومتی اقدامات کے خلاف ایک قوت کے طور پر ابھرنے لگے۔ گویا کہ تحریک طالبان پاکستان کے قیام کی راہ حکومت نے خود اپنی نا عاقبت اندیشی سے ہموار کی۔ جب صورت حال اس نازک مرحلے پر پہنچ جائے تو دشمن عناصر ایسے مواقعوں سے لاپروا نہیں رہتے۔ جنگوں کا یہ اصول معروف ہے کہ ”دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے” لہٰذا اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اس خونریزی کو ہوا دینے میں دشمن ممالک نے خوب کردار ادا کیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے اس رویے نے ایک طرف پاکستان میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں کو رواج دیا، تو دوسری طرف افغانستان میں قابض امریکی افواج کے خلاف برسر پیکار مجاہدین کے لیے بھی مشکلات میں اضافہ کردیا۔ یعنی افغان جہاد سے صرف نظر کرکے پاکستان میں ایک نیا محاذ جنگ بنادیا گیا۔

ابتدا میں ٹی ٹی پی کے نظریات معاشرے میں مکمل نہ سہی کسی حد تک مقبول ضرور تھے۔ اس کے بنیادی اسباب ڈرون حملوں میں بے گناہ قبائلیوں کی شہادت اور امریکی ”ڈو مور” کے مطالبے پر پاکستان کا عجلت پسندانہ رویہ ہے۔ 2009ء کے سوات آپریشن تک ٹی ٹی پی ایک مضبوط قوت کی شکل میں منظر نامے پر چھائی رہی۔ لیکن بعد کے ادوار میں جہاں ایک طرف ٹی ٹی پی کو تازہ خون ملتا رہا، تو دوسری طرف یہ مختلف دھڑوں میں تقسیم کے عمل سے دوچار ہوئی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان نہ صرف کئی حصوں میں منقسم ہے، بلکہ ان کی صفوں میں جرائم پیشہ افراد سے لے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث کارندے بھی شامل ہیں۔

ٹی ٹی پی کے خیالات اور ان کے طور اطوار کو دیکھا جائے تو یہ کہنا ذرا بھی غلط نہ ہوگا کہ تحریک طالبان میں جوش ہے ہوش نہیں، جذبہ ہے عقل نہیں۔ جس نے چاہا بھڑکا دیا، جس نے چاہا ورغلا دیا۔ اب حالت یہ ہے کہ تحریک طالبان کی دبے لفظوں میں حمایت کرنے والے بھی ان کے کیے پر نادم اور شرمندہ ہیں۔ یہ سانحہ پشاور کے معصوم کلیوں کا خون ہے جو ٹی ٹی پی کی نائو کو ڈبوکر دم لے گی۔ اب یہ کہنے کی ضرورت بھی نہ پڑے گی کہ ضرب عضب نے تحریک طالبان کی کمر توڑ دی، کیونکہ ٹی ٹی پی اپنے ہاتھوں خودکشی کر بیٹھی۔

Farooq Azam

Farooq Azam

تحریر : فاروق اعظم
farooqazam620@yahoo.com
0315-2246038