ترکی کی یونان کو ایک بار پھر دھمکی، تنازع کا فوجی حل ‘پاگل پن’ ہو گا: جرمنی

Mevlut Cavusoglu

Mevlut Cavusoglu

ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی جانب سے مشرقی بحیرہ روم میں قدرتی تیل اور گیس کی تلاش کے لیے جاری آپریشن کےدوران پڑوسی ملک یونان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ صدر ایردوآن کی طرف سے یونان پر تنقید اور اسے بھاری قیمت چکانے کی دھمکی کے بعد ترک وزیر خارجہ مولود جاووش اوگلو نے بھی یونان کو فوجی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔

دوسری طرف جرمنی نے مشرقی بحیرہ روم میں قدرتی گیس کی تلاش کے ترک اقدام کے بعد پیدا ہونےوالے تنازع کو سیاسی طریقے سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ جرمنی کا کہنا ہے کہ یونان اور ترکی کےدرمیان کشیدگی کو فوجی طریقے سے حل کرنا’پاگل پن’ ہوگا۔

گذشتہ روز ترک وزیر خارجہ جاووش اوگلو نے اپنے جرمن ہم منصب ہیکو ماس کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مشرقی بحیرہ روم میں تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے ہیں۔ انہوں‌ نے کہا کہ اس تناو اور کشیدگی کا ذمہ دار یونان ہے اور اس کے اس کی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین اب بھی یونان کو پوری طرح سے مدد فراہم کر رہا ہے۔ یونان بحیرہ روم میں بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی اشتعال انگیزی جاری رکھے ہوئے ہے۔

ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اپنے حقوق کا تحفظ کریں گے اور کسی کو ان سے تعصب کی اجازت نہیں دیں گے۔ یونان کا مصر کے ساتھ معاہدہ سمندری سرحدوں سے متعلق کسی بین الاقوامی قانون کے تابع نہیں ہے۔

دوسری طرف ہیکو ماس نے مشرقی بحیرہ روم میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم مشرقی بحیرہ روم میں تناؤ کو کم کرنے اور یونان اور ترکی کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ترکی اور یونان کے درمیان فوجی حل “پاگل پن” ہوگا لیکن انہوں نے زور دے کر کہا کہ کوئی اس تنازعہ کو فوجی ذرائع سے حل نہیں کرنا چاہتا ہے۔ دونوں ملک بات چیت پر آمادہ ہیں‌۔

انہوں نے اشارہ کیا کہ مشرقی بحیرہ روم میں تناؤ میں اضافہ ترکی ، یونان یا یورپی یونین کے لیے مثبت نتائج کا باعث نہیں ہو گا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالیہ عرصے کے دوران یونان اور ترکی کے درمیان زیر آپ قدرتی وسائل پر اپنے اپنے حقوق کے دعوے کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھی ہے۔ اس کشیدگی کے بعد دونوں ممالک میں سمندر میں اپنی اپنی فوج کی تعداد بھی بڑھا دی ہے۔