ترکی پر دباؤ: جوبائیڈن آرمینیا میں نسل کشی تسلیم کرنے والے پہلے امریکی صدر بن جائیں گے؟

Demonstration

Demonstration

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کے صدر جو بائیڈن پر اس وقت انتخابی وعدے پورے کرنے کے لیے دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔انھوں نے گذشتہ سال اپنی انتخابی مہم کے دوران میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ آرمینیائی باشندوں کے پہلی عالمی جنگ میں ترکی کی سلطنت عثمانیہ کی فوج کے ہاتھوں قتل عام کو نسل کشی کے طور پرتسلیم کرلیں گے۔

لیکن ترکی صدر بائیڈن کو خبردار کرچکا ہے کہ اگر انھوں نے ایسا کوئی فیصلہ کیا تو اس سے دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔دونوں ملک معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم نیٹو میں بھی شامل ہیں اوراس فوجی اتحادکی افواج میں ترکی کا اہم کردار ہے۔

آرمینیائی باشندے ہر سال 24 اپریل کو دنیا بھرمیں ایک صدی قبل اپنی نسل کے قریباً 15 لاکھ افراد کے قتل عام کی یاد میں دن مناتے اور مظاہرے کرتے ہیں۔اس مرتبہ یہ دن قریب آنے پرنئے امریکی صدر یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی سے متعلق اپنے ممکنہ فیصلے کااعلان کرے۔

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن کانگریس ایڈم شیف نے منگل کے روز صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے انتخابی وعدے کو پورا کریں۔انھوں نے صدر کے نام ایک کھلے خط میں لکھا ہے کہ ’’ہم اسی ہفتے دیکھیں گے کہ آیا آپ فرانس ،جرمنی ، یورپی یونین ، ویٹی کن اور 49 دیگر ریاستوں کے لیڈروں کی صف میں شامل ہوتے ہیں جو پہلے ہی آرمینیا کی نسل کشی کو تسلیم کرچکے ہیں۔‘‘

قبل ازیں امریکی سینیٹ کے 35 ارکان نے صدر جوزف بائیڈن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ آرمینیا میں ترکی کی سابق سلطنت عثمانیہ کی افواج کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو نسل کشی تسلیم کرلیں۔اس طرح وہ یہ فیصلہ کرنے والے امریکا کے پہلے صدر ہوں گے۔

ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹروں کے ایک گروپ نے صدربائیڈن کے نام ایک خط لکھا تھااور اس میں ان سے کہا کہ ’’ماضی میں دونوں جماعتوں کی انتظامیہ آرمینیا میں قتل عام کی سچائی کے بارے میں خاموش رہی ہے۔ہم آپ پر زوردیتے ہیں کہ پیچیدگی کے اس انداز کو ختم کریں اورآرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کو سرکاری طور پر تسلیم کریں۔‘‘

ان کے پیش رو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ 1915ء میں پہلی عالمی جنگ کے دوران میں ترک فوج کے ہاتھوں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو نسل کشی خیال نہیں کرتی ہے۔

امریکا کی نائب صدر کمالا ہیرس نے دو سال قبل سینیٹ میں اپنے ایک ساتھی سینیٹر سے مل کر ایک قرارداد متعارف کرائی تھی،اس میں آرمینیا میں نسل کشی کو تسلیم کرنے پر زوردیا گیا تھا۔

امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں نے 2019ء میں اس قرار داد کے ذریعے عثمانی ترکوں کی فوج کے ساتھ لڑائی میں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو نسل کشی قرار دیا تھا جبکہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا اور سابق صدر ٹرمپ نے اس کو منظور نہیں کیا تھا۔

امریکا کے سابق صدور یہ دلیل دیتے رہے ہیں کہ آرمینیا کی نسل کشی کو تسلیم کرنے سے نیٹو اتحادی ترکی کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ آسکتا ہے لیکن جوبائیڈن نے گذشتہ سال انتخابی مہم کے دوران میں کہا تھا کہ وہ آرمینیا میں نسل کشی کو تسلیم کرنے سے متعلق بل کی حمایت کریں گے۔

امریکی سینیٹروں نے خط میں صدر جوبائیڈن کو باور کرایا تھا کہ ’’ماضی میں آپ نے آرمینیا میں قتل عام کو نسل کشی کے طور پر تسلیم کیا تھا اور 2020ء میں انتخابی مہم کے دوران میں آرمینیا کی یادگار کے دن کے موقع پر بھی اس مؤقف کا اعادہ کیا تھا۔ہم آپ سے اب یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ صدر کے طور پر یہ واضح کردیں کہ امریکی حکومت اس خوف ناک سچائی کو تسلیم کرتی ہے۔‘‘

گذشتہ سال اس قتل عام کی برسی کے موقع پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا بیسویں صدر کے بدترین قتل عام کے متاثرین کوخراج عقیدت پیش کرتا ہے لیکن انھوں نے اس بیان میں نسل کشی کی اصطلاح استعمال نہیں کی تھی۔اس کے بجائے انھوں نے آرمینیا اور ترکوں پر زوردیا تھا کہ وہ اپنی دردناک تاریخ کو تسلیم کریں اور اس پر غور کریں۔

یاد رہے کہ امریکا کے ایک اورسابق صدر براک اوباما نے بھی بہ طور امیدوار انتخابی مہم کے دوران میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ منتخب ہونے کی صورت میں آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کو نسل کشی تسلیم کریں گے لیکن اپنی جیت کے بعد انھوں نے اس اصطلاح کو استعمال نہیں کیا تھا کہ اس کے بجائے ان کا کہنا تھا کہ وہ وائٹ ہاؤس میں آنے سے قبل کے مؤقف اور نقطہ نظر کے حامل ہیں۔

آرمینیا کا کہنا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کی فوج نے پہلی عالمی جنگ کے دوران میں پندرہ لاکھ افراد کا قتلِ عام کیا تھا۔اس کا مقصد مسیحی نسلی گروپ کی تطہیر تھا۔ترکی اس بات کو تو تسلیم کرتا ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کی فوج کے ساتھ جنگ میں بہت سے آرمینیائی باشندے ہلاک ہوگئے تھے لیکن وہ انھیں ایسے منظم انداز میں قتل کرنے کے الزامات کی تردید کرتا ہے جنھیں مغرب کی اصطلاح میں نسل کشی قرار دیا جا سکے۔ مغربی ممالک ایک عرصے سے آرمینیائی باشندوں کی ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دیتے چلے آرہے ہیں۔