ایغور مسلمانوں کی گرفتاریاں، کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے

Detention Centers

Detention Centers

سنکیانگ (اصل میڈیا ڈیسک) چینی پولیس کے افشاء ہونے والے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ ایغور نسل کے افراد کو اب کمپیوٹر پروگرام کے ذریعے حراست میں لیا جا رہا ہے۔ یہ کمپیوٹر پروگرام اپنی مرضی سے لوگوں کو حراستی مراکز منتقل کرنے کا انتخاب کرتا ہے۔

امریکا کے نیو یارک سٹی میں قائم انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے چینی صوبے سنکیانگ کی پولیس کے افشاء شدہ ڈیٹا کے حوالے سے ایک کمپیوٹر پروگرام کا بتایا ہے جو اپنی مرضی سے مسلم ایغور کمیونٹی کے افراد کی حراستی مراکز میں منتقلی کا انتخاب کرتا ہے۔ اس پروگرام کے استعمال کی انسانی حقوق کی تنظیم نے مذمت کرتے ہوئے اسے کمپیوٹر کے ذریعے حقوق کی خلاف ورزی سے جوڑا ہے۔ چینی حکومت ان حراستی مراکز کو پیشہ ورانہ تربیت کے سینٹرز قرار دیتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ مایا وانگ کا کہنا ہے کہ سنکیانگ کے ایغور نسل باشندوں کو اب کمپیوٹر کے ذریعے حکومتی جبر کا سامنا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے معلومات کے ذریعے یا ذرائع کا انکشاف نہیں کیا کیونکہ ایسا کرنے پر معلومات مہیا کرنے والے افراد کو حکومتی تشدد اور گرفتاری کا سامنا ہو سکتا ہے۔ایغور مسلمانوں کو خنزیر کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے، الجزیرہ رپورٹ

پولیس کے کمپیوٹر پروگرام کا نام ‘انٹیگریٹد جوائنٹ آپریشنز پلیٹ فارم‘ (آئی جے او پی) ہے اور اس میں تقریباﹰ تمام ایغور نسل کے مسلمانوں کا ڈیٹا محفوظ ہے۔ یہ پروگرام جس بنیاد پر افراد کا انتخاب کرتا ہے اس میں ایغور مسلم آبادی کی فراہم کردہ بنیادی ذاتی معلومات ہیں جن میں قران پڑھنے، نماز ادا کرنے، ظاہری وضع قطع جیسے کہ داڑھی رکھنے اور مذہبی لباس کے استعمال شامل ہیں۔ مذہبی پہناوے میں مردوں کے لیے ٹوپی اور عورتوں کے لیے حجاب یا سر پر چادر رکھنا مراد ہے۔ اس پروگرام کی مدد سے سنکیانگ صوبے کے ضلع آکسو کے دو ہزار افراد کو حراستی مراکز میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ آئی جے او پی کا استعمال پولیس کی مدد کے لیے آئندہ حکمت عملی کے حوالے سے کوئی مشورہ دینا ہے۔

سنکیانگ کی پولیس کے زیر استعمال آئی جے او پی پروگرام نے ایغور نسل کے افراد کے ناموں کو ان کی مذہبی عادات کی روشنی میں ،مخصوص نشان یا ‘فلیگڈ‘ کر دیا ہے۔ ان فلیگڈ لگے افراد کو تحویل میں لینا آسان ہے۔ ذرائع کے مطابق کمپیوٹر پروگرام نے ورچوےئلی ایغور آبادی کے بے شمار افراد کو نشان زدہ کر رکھا ہے تا کہ انہیں حکام کے ”قانونی‘‘ یا ‘تادیبی‘ رویے کا باآسانی سامنا ہو سکے۔ ایسے افراد کے جو رشتہ دار بیرون ممالک ہیں، انہیں بھی پروگرام نے فلیگ کر دیا ہے۔ ابھی تک اس پروگرام کی مدد سے دس فیصد افراد کو دہشت گردی کے شبے میں حراست میں بھی لیا جا چکا ہے۔ بظاہر اس عمل کو ماہرین ناقابل اعتبار قرار دے رہے ہیں۔ایغور مسلمانوں کی حمایت کیوں کی، چین کی پوپ فرانسس پر تنقید

عالمی برادری چین کی ایغور کمیونٹی کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر تنقید جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان میں امریکا اور یورپی یونین خاص طور پر نمایاں ہے۔ اس تنقید میں پیشہ ورانہ تربیت کے مبینہ مراکز کو ‘حراستی سینٹرز‘ قرار دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ان مراکز میں دس لاکھ کے لگ بھگ افراد مقید ہے۔ ان مراکز کی چینی حکام نے سخت نگرانی کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے اور مراکز کے گرد سیکڑوں پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ چینی حکام کے مطابق جو افراد تربیت مکمل کر لیتے ہیں، انہیں واپس گھروں کو بیج دیا جاتا ہے۔