کیا میرے ملک میں انسان اور انسانیت کسی اور چیز کا نام ہے

Culture

Culture

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم

اگرچہ آج دنیا میں بسنے والا ہر اِنسان اپنی شکل و صُورت، سوچ و سمجھ، رہن وسہن، تہذیب و ثقافت، بول وچال، رنگ ونسل، زبان و مذہب، علاقہ و سرحداور اپنی جسمانی خدوخال کے لحاظ سے دوسرے اِنسان سے مختلف ضرور ہے مگر اِسے اِس سے انکار نہیں کرناچاہئے کہ اِس کو تخلیق کرنے والی صرف اللہ رب العزت کی ہی ایک ذاتِ عظیم ہے جس نے اِسے تخلیق کیا اور دنیا میں بھیج دیااَب یہ اور بات ہے کہ بحیثیت اِنسان کوئی یہ نہ مانے کہ وہ رب کائنات اللہ رب العزت کی تخلیق کردہ ہے اور ایک ہی باوا آدم علیہ السلام کی اُولادہے،اور یہ سب مان لینے اور جان لینے کے باوجود بھی اپنی اکڑ اور اپنی ضداور اِنا کی بدولت اپنی پیدائش کی نسبت طرح طرح کے خود ساختہ مضروضوں اور خیالات سے نتھی کرتا پھرے ،اور اپنی ساری عمراپنے ہی خیالی اور تصوراتی مضروضوں کو سچ گرداننے میں گزارکرخود بھی ایک دن دنیا سے ہی گزر جائے

اورپھراِس کا ساراکیا دھرایہیں دنیاہی میں رہ جائے اور اِس کا ساراغروراور گھمنڈخاک میں مل جائے پھربھی وہ اِس سے انکاری رہے کہ اِس کا تخلیق کارکون ہے…؟ایسے اِنسانوں کو فناہونے سے قبل اتنی سی بات سچے دل سے مان لینی چاہئے کہ اِنسان کی جو ایک اٹل حقیقت ہے وہ بس یہی ہے کہ اِسے اللہ نے تخلیق کیاہے اور اِس کے کارخانے قدرت میں یہ سلسلہ ازل سے جاری ہے اورابد تک چلتارہے گااور جب تک یہ دنیاقائم رہے گی اوراِس روئے زمین کے جس خطے میں بھی اِنسان پیداہوتے رہیں گے سب اللہ کے ہی پیداکئے ہوئے ہوں گے اور وہ ایک ہی باوا آدم علیہ السلام کی اولاد کہلائے جاتے رہیں گے۔

بہرحال….!آج میں جس معاشرے میں سانس لے رہاہوں اِسے مایوسیوں کی سیاہ چادر نے اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے،جدھر بھی نظرجاتی ہے سوائے طرح طرح کے مسائل اور بحرانوں کے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتاہے، یا یوں کہہ لیجئے کہ جیسے میر ے مُلک کے حکمرانوں اور کرتا دھرتا و¿ں نے اپنی ناقص حکمت او رنادانی سے مُلک اور معاشرے کے ہر عمرکے لوگوں کو نااُمیدی اور مایوسی کے گہرے اندھیرے کنوئیں میں ڈھکیل دیاہے تب ہی میرا معاشرہ دو طبقات میں بٹ گیا ہے ایک وہ طبقہ ہے جو اپنی چاپلوسیوں اور خوشامد سے حکمرانوں سے نوازہ ہوا ہے تو دوسراوہ غریب اور مفلوک الحال طبقہ ہے

جِسے حکمران اِنسان ہی نہیں سمجھتے ہیں اَب ایسے میں مجھے اپنے اردگردسوائے چند ایک کے سب ہی اِنسان ، اِنسانوں کے روپ میں بھیڑیئے نظرآتے ہیں ،اورلگتاہے کہ جیسے میرے معاشرے میں بسنے والے اِنسانوں کا ایک دوسرے پر سے اعتباراُٹھ ساگیاہے، اَب اِن میں نہ تو کوئی اِنسان دکھائی دیتاہے اور نہ ہی میرے معاشرے میں کہیں اِنسانیت ہی نظرآتی ہے، مفاد پرستی، عیب جوئی، سیاسی و اخلاقی اور سماجی برائیاں جیسے کرپشن، اقربا ءپروی، قتل وغار ت گری، لوٹ مار، ملاوٹ اور ایسی ہی بہت سی دوسری برائیاں میرے معاشرے میں بسنے والے اِنسانوں کی رگوں میں رس بس گئیں ہیں، اور آج مجھے اِس سے بھی انکار نہیں ہے کہ میرے معاشرے میں ہراِنسان کے منہ میں 32 دانتوں کے درمیان جو ایک گزبھر کی لمبی سی زبان ہے جِسے اُس کا کام جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کرنے میں ہی گزر جاتا ہے، یہ بھی معاشرے میں فساد کی سب سے بڑی جڑ بن گئی ہے۔

King

King

یہاں مجھے حضرت سعدیؒ کی کتاب حکایاتِ گُلستانِ سعدیؒ کی ایک حکایت یادآگئی ہے میں چاہتاہوں کہ اُسے اپنے پڑھنے والوں کے لئے بیان کروں حفرت شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک زمانے کی بات ہے کہ ایک بادشاہ نے کسی بے گناہ قیدی کے قتل کا حکم دیازندگی سے مایوس ہو کر موت کی سزاپانے والا بادشاہ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا، بادشاہ نے اپنے وزیروں سے پوچھایہ کیا کہتا ہے، وزیروں میں سے ایک وزیرباتدبیرنے عرض کیا©©©” جہاں پناہ یہ کہتاہے کہ جو لوگ اپنے غصے کو مارتے ہیں اور آدمیوں کی خطا بخشتے ہیں وہی دونوں جہاں میں محبوب ہیں، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے

س پر دوسرے وزیرنے جو پہلے وزیرسے دل میں کدورت اور بغض رکھتاتھااِس نے دوقدم آگے بڑھ کر چاپلوسی کے انداز میں کہا” جہاں پناہ…!بات ایسی نہیں ہے جیسی یہ میرے ساتھی وزیر بیان کررہے ہیں یہ آپ کا نمک کھاکرآپ سے جھوٹ بول رہے ہیں ، موت کی سزاپانے والے نے توآپ کو بڑی گندی گندی گالیاں دی ہیں“دوسرے وزیر کی بات سُن کر( بادشاہ حیران ہونے کے بجائے) اِس نے جواب دیا”ہمیں اِس کا جھوٹ پسندِ خاطرہے، وہ جھوٹ جس میں صلح اور اصلاح کی آمیزش ہواِس سچ سے بہتر ہے جو فساد برپا کرے، اِس قیدی نے جو کچھ کہاہے اُس میں اِس کا کوئی قصور نہیں کہ زندگی سے مایوس ہوکرآدمی آگا پیچھا نہیں دیکھتا، جو زبان پر آئے کہہ دیتا ہے اور جو جی میں آئے کر گزرتا ہے“

معاف کیجئے گا…!آج میرے اِس مُلک اور معاشرے میں جہاں چندہی اِنسان اور اِنسانیت کے معیار پر پورا اُترنے والے لوگ بستے ہیں اِنہیں اپنے مُلک اور معاشرے میں رہنے والے اِنسانوں کی صلح اور اصلاح کے لئے آگے آنے کی اَشد ضرورت ہے تاکہ میرا مُلک اور معاشرہ اِنسان اور اِنسانیت کا گہوارہ بن جائے پھر جہاں نہ فسنہ فساد ہوں اور نہ ہی کسی قسم کی ایسی سیاسی اور اخلاقی بُرائیاں جنم لینے پائیں جیسی کہ اِن دِنوں موجود ہیں

آج جب میں اپنے مُلک میں اِنسانوں کی سوچ وفکر اور اِن کے حالاتِ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے ایسے محسوس ہوتاہے کہ جیسے میرے مُلک میں بسنے والے اِنسان کسی اور دنیا (یادورِ جہالت یا ظہورِ اسلام سے قبل کے اِنسانوں) سے تعلق رکھنے والے افرادکے ہجوم پر مشتمل ہیں اِن نہ تو کوئی اِنسان ہے اور اِن میں نہ ہی کہیں سے اِنسانیت پائی جاتی ہے اَب ایسے میں میرے ذہن میں ایک سوال یہ بھی پیداہوتاہے کہ کیااِنسان اور ہیں اور اِنسانیت کسی اور چیزکا نام ہے…؟قارئین حضرات …!میراآپ سے یہ سوال ہے اگر آپ کے پاس کوئی جواب ہے تو براہِ کرم مجھے ضرورمطلع کیجئے گا۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
فون نمبر: 03312233463
azamazimazam@gmail.com