بھبھوڑ دو عورت کو

Woman Rape

Woman Rape

تحریر : ممتاز ملک.پیرس

کبھی دن کے اجالے میں مردانگی کا اشتہار فرشتے مار ڈالتا ہے تو کبھی رات کے اندھیرے میں اس پر کسی بھی کام سے ، چاہے مجبوری سے نکلنے پر اس کی آبروریزی کے لیئے جواز ڈھونڈتا ہے ۔ ہمارے مردوں میں وہ کون سا کیڑا ہے جو کسی بھی عورت کو کسی بھی عمر میں یا یوں کہہ لیں گود سے گور تک دیکھ کر کتے کی طرح بھنبھوڑ نے پر اکساتا ہے ۔ پھر اس رذیل کام کے بعد وہ نیک ، پرہیز گار ، محنتی ،ذمہ دار ،بیٹا ، بھائی ، شوہر ، باپ بن کر اپنے گھر بھی پہنچتا ہے ۔ سب کو اپنی پارسائی کو سراہنے پر مجبور بھی کرتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر نیکی کا بھاشن بھی دیتا ہے ۔ قران کی آیات و تراجم شئیر کرتا ہے تو کہیں احادیث کے نمونے لگا لگا کر دنیا کو اپنے نیکی کے اشتہار بھی بانٹتا ہے۔

لیکن اس کے کردار کا اصل دیکھنا ہو تو اسکے سامنے کوئی عورت لا کر کھڑی کر دو ۔ تھوڑا اختیار دیدو ۔ بس پھر دیکھیئے اس کے اندر کا شیطان پارسائی کی بوری پھاڑ کر کیسے سامنے آتا ہے۔

روز ایک نئے نام سے پرانی کہانی میرے اسلامی جمہوریہ میں دہرائی جاتی ہے ۔ کل کے دن میں ملک کے جڑواں شہروں میں دارلحکومت کے اندر اپنے ہی گھر کے سامنے سے اٹھائی ہوئی دس سال کی فرشتے کی عزت کا ماتم کریں یا راولپنڈی میں بائیس سال کی نوجوان لڑکی کا پولیس گردوں کے ہاتھوں گینگ ریپ پر ان کا نوحہ پڑہیں ۔۔یا ہم ان ٹھرکیوں کے سوشل میڈیا پر بیٹھ کر بے شرمانہ کومنٹس پر ان پر تھوکیں جو کم از کم مرد تو نہیں کہلا سکتے ۔ کہ جن کے ہوتے ہوئے اس ملک میں کوئی بچہ کوئی عورت نہ اپنی عزت محفوظ سمجھتا ہے نہ ہی اپنی جان ۔۔لیکن وہ یہاں کومنٹس میں اپنا غلیظ چہرے کی کالک عورت پر پوت کر خود کو صاف ستھرا ظاہر کر رہے ہیں ۔

جس کے ہاتھ جس عمر کی عورت لگے وہ اسے اپنے پانچ منٹ کے مزے کے لیئے ہر دین، دھرم ، عزت ، حیا ، خدا کا خوف سے سے پلہ جھاڑ کر تباہ و برباد کر کے دم لیتا ہے ۔ کیا پاکستانی مردوں کی اکثریت دنیا بھر میں جنسی امراض کی سب سے زیادہ شکار ہے ۔ یا ذہنی امراض کا، نفسیاتی مسائل کا حل ان جانوروں نے عورتوں کو بھنبھوڑنے میں تلاش رکھا ہے ۔ کیا ان کی ماوں نے انہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ سب عورتیں ویسی ہی ہوتی ہیں جیسی ان کی اپنی ماں ہے یا بہن ہے ۔ یا انہیں یہ بتانا یاد نہیں رہا کہ ہر وہ چیز جس پر کسی انسان کی نظر پڑتی ہے اس کی ملکیت نہیں ہوتی، نہ ہی وہ اس کے زیر تصرف آ جاتی ہے ۔ تمہارے استعمال میں تمہارے نام جاری ہونے والی کوئی چیز یا رشتہ ہی ہو گا اور بس ۔ باقیوں پر رال ٹپکانے سے پہلے اپنے مذہب اور معاشرتی تقاضوں کو اپنی آنکھوں پر باندھ کر رکھو۔

لعنت ہے اس معاشرے پر کہ جس کے مرد اپنے ہاں عورتوں اور بچوں کی جان اور عزت کی حفاظت نہیں کر سکتے ۔ جو اپنے اندر کا کیڑا نہیں مار سکتے ۔ یہ خود کو کس منہ سے مرد کہتے ہیں ۔

انکے لیئے عملی سزاوں کا اطلاق کروانے کے لیئے ہمیں کس ملک کی عدالت سے رابطہ کرنا پڑیگا ۔ یا پھر ہم براہ راست اپنی عزت اور جان کی حفاظت کے لیئے اقوام متحدہ سے کاروائی کرنے کی درخواست کریں ۔

ہمیں بتائیں ہمارے ہاں کے غیرتمند کہلانے والے مردوں نے اس معاملے میں اپنے منہ میں گھنگھنیاں کیوں ڈال رکھی ہیں ۔ کیا ان کی اپنی داڑھی میں تنکے کی بجائے جھاڑ ہے پورا ،جو انہیں زبان کھولنے نہیں دیتا ۔ حکومت پاکستان کیا اس سلسلے میں کسی اور ملک کے دباو کا انتظار کر رہی ہے ؟

ہمارے معاشرے میں ہندوستانی فلموں کے زہریلے اثرات تیزی سے گھل رہے ہیں ۔ ہمیں ان کے رخ پر بہنے کے بجائے اپنے میڈیا کو مثبت انداز فکر کی جانب راغب کرنا ہو گا ۔ انہیں یہ باور کرائیں کہ عورت اور بچہ جس معاشرے میں محفوظ نہیں وہاں صرف مردوں کو رنڈی خانے ہی ملیں گے ۔

اس مرد کے گھر کی عورت اس کے آگے اور اس کے گھر کی عورت اس کے آگے ۔۔کیونکہ یہ خدا کا فیصلہ ہے ۔

چاہے وہ دن کی روشنی ہو یا رات کا اندھیرا ۔

آباد گھروں کو بھول جائیں پھر

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک.پیرس