خواتین

Women

Women

تحریر : شمع باسط

کا اگر بغور مطالعہ بھی کریں تو یہ بات کہیں زیر نظر نہ ھو گی ماسواے چنداں مثالوں کے.. شاید وہ بھی نہ ھی ملیں جہاں خواتین سے مرد حضرات کو شکایت رھی ھو یا عورتوں نے مرد حضرات کو دیکھ کر کوئی جملہ کسا ھو یا کوئی ماشاللہ بسم اللہ یا اسکے مساوی کوئی جملے بازی کی ہو..ہاں ادھر شو ہر حضرات والی شکایتوں کی بات شامل نہیں ھو گی کیونکہ انکی تو ازلوں سے لمبی لسٹ ھی شکایتوں کی چل رہی ہے مگر معذرت کے ساتھ خواتین نے یقین مانیے اپنا گھر بچانے کی خاطرکبھی بھی شوہروں کے شکوے شکایتوں کو سنجیدہ نہیں لیا ہمارے معاشرے میں عام طور پر خواتین کو صنف نازک کہا جاتا ہے برصغیر کے شعرا نے تو عورت کی اس طرح مدح سرائی کی ہے کہ شاید وہ اتنی نازک ہیں کہ مسلسل سانس لینے سے بھی تھک کر کہیں مر ہی نہ جائیں خواتین آخر اتنی نازک کیوں تصور کی گئی ہیں یہ جناب صرف شعراء کرام کی شاعری تک ہی دکھائی دیتی ہے حقیقت میں تو ہمارے معاشرے میں عورت کمر پر 20 اینٹیں باندھ کر مزدوری کرتی نظر آتی ہے یا پھر وہ سارا سارا دن گھر والوں کی خدمت میں گزار دیتی ہیں تو پھر ہی ایک نیک عورت کہلانے کا حق رکھتی ہے۔

ہمارے ملک میں خواتین پڑھی لکھی ہیں مگرخاندانی دباؤ کی وجہ سے اکثر اوقات باہر جاکر نوکری نہیں کر سکتی ہیں کیونکہ باہر نوکری کرنے میں خواتین کے لیے بہت پیچیدہ مسائل بعض اوقات پیدا ہو جاتے ہیں ہمارے معاشرے میں کم پڑھی لکھی لڑکی اگر کسی فیکٹری میں یا کسی ٹیلی فون آپریٹر کی نوکری کر لے تو بس باہر کے مرد اسے اپنی پراپرٹی سمجھنے لگ جاتے ہیں سو سو طرح سے زیر احسان کرنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں اوراس لائن میں بیشتر تعداد ان مردوں کی دیکھی گئی ہے جنکا زہنی توازن اتنا کو ھوتا ہے کہ اگر گھر سے پانی کی بوتلیں بھروانے دے کر بھیجو تو ساتھ انکو یاد دہانی کی پرچی دینی پڑتی کہ اسمیں پانی بھروانا ورنہ اکثر وہ بوتلیں خالی ہی گھر لے آتے ہیں. وہ بھی باہر لڑکیوں کو دیکھ کر کہتے پھرتے چندا ہاں کردو!!! زندگی بھر تمہیں یاد رکھوں گا.اپنے گھروالوں کے نام کبھی بھولے سے بھی نہ لیے ھوں مگرباہر کم از کم تین تین محبتی نام تو لڑکیوں کے رکھے ھوتے..اول تو ملازمت حاصل ہی بڑے پاپڑ بیلنے کے بعد ہوتی ہے اور پھر مردوں کی حاکمیت باہر کام کرنے والی خواتین کے لیے سوطرح کے آنکھوں میں سوال لئے پھرتی ہے ہمارے معاشرے میں عورت صرف اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ خاموش رہے کیا عورت صرف پسنے کے لیے پیدا ہوتی ہے مگر کیوں؟؟؟ اسکا کیوں کوئی جواب نہیں مل سکا. اس ملک میں 93 فیصد خواتین کسی نہ کسی طرح تشدد کا شکار ہوتی ہیں جبکہ دس فیصد سے بھی کم ہی کیسز رپورٹ ہوتے ہیں سنا تو ہوگا کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہے یہ عورت ہے جو بیٹے کو پہلی روٹی دیتی ہے اور بیٹی کو دوسری روٹی دیتی ہے کیا عورت لڑکی کی کم اور لڑکے کی زیادہ ماں ہوتی ہے۔

کم عمری میں ہی لڑکی کے ذہین میں یہ ڈالا جاتا ہے کہ مرد سے نسل اور معاشرہ چلتا ہے لہذا غلط اور صحیح جو بات بھی مرد کریمرد کو برتری دینا ہی ایک عورت کو معتبر بناتا ہے شروع سے ہی لڑکی کے ذہن میں یہ بات بھی ڈال دی جاتی ہیکہ بیٹی تو پرائی ہے.. تم نے جس گھر بیاہ کے جانا ہے وہی تمہارا گھر ہو گا یہ گھر تمہارے بھائیوں کا ہے ہم ان باتوں میں کب تک عورتوں کو الجھاے رکھیں گے اور اس کے حق سے محروم رکھیں گے کیوہ بھی اسی گھر کا فرد ہے کوئی غیر نہیں ہمارے معاشرے میں تو خواتین کو باآسانی ان کا جائز حق بھی نہیں دیا جاتا عورت کو تو اپنے ماں باپ کی جائیداد میں سے حصہ بھی آسانی سے نہیں مل پاتا بھائیوں کی اکثر کوشش ہوتی کہ بیٹی یا بہن اپنا حصہ معاف ہی کر دے اور رواج تو یہ بھی ہے کہ عورت کے حصے کی جائیداد باہر نہ جائے بعض اوقات عورت کی قرآن کے ساتھ ھی رسم نکاح کر دی جاتی ہے کیا عورت کو کبھی سکھ کا سانس ائے گا کیا عورت اپنی خوشی یا غم کا اظہار اپنی مرضی سے کر سکے گی نہیں اس کا شعور ہمیں نہیں دیا جاتا ماں کے لئے سب بچے برابر ہونے چاہیں وہ لڑکا ہو یا لڑکی.ایک ماں کا فرض ہونا چاہیے کہ لڑکی ہو یا لڑکا دونوں کو یکساں محبت اور تعلیم دے۔

عورت کی زیست کا ہر ہر مرحلہ نہا یت حساس ہوتا.جیسے ہی لڑکی جوان ہو جاتی ہے اور اس کے رشتے کی بات چلتی ہے تب جو پریشانیاں خواتین کے حصے میں آتی ہیں ان کا ازالہ کرنا ناممکن ہے لڑکا پسند کی شادی کا اظہار کرے تو بات ماننے میں آ جاتی ہے اگر کسی لڑکی نے یہ بات گھر میں کہہ دی تو اول تو وہ غیرت کے نام پر قتل ہو جائے گی اور جب لڑکے کے لیے رشتے تلاش کیے جاتے ہیں تو درج ذیل خوبیاں لڑکی میں لازمی ہی ھو نی چاہیں کہ لڑکی کا ماضی شیشے کی طرح صاف ہو نیک پرہیزگار اور متقی ہو ایسے جیسے شادی کے فورا بعد ہی اسے عالمہ فاضلہ یا خطیبہ کا درجہ دیا جانا ہے اور خوبصورتی بھی ایسی ہو کہ کترینہ کیف ھو ہو بہو کیا ڈرامہ بازی ہے یہ لڑکے چاہیے نہایت بدکردار ہوں بس پیسہ ہونا چاہیے آپ کو لڑکی کا رشتہ مل جائے گا مگر لڑکی کے لئے سو طرح کی رنگ بازیاں کے ایسی ہو ویسی ہو اور عورت ہمیش خاموش خاموش اور خاموش رہی ہے کیونکہ ہمارے اسلاف سے بھی اسے اس کا درس دیا گیا ہے… مگر اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق عورت رکھتی ہے اسے یہ حق دیا جائے….

اچھا!!!! رشتہ دیکھنے والے جب لڑکی کا رشتہ دیکھنے جاتے ہیں بیچارے لڑکی والے سو طرح کے اہتمام کرتے ہیں پھر اگر کسی کی لڑکی مناسب شکل و صورت کی ہو تو وہ اوقات سے بڑھ کر اہتمام کرتے ہیں جو خاندان زرا غریب ہوتے ہیں یا آسان زبان میں جن کے صوفے ڈرائنگ روم میں بیٹھی گدی والے ہوتے ہیں اور پرانے ڈیزائن کے ہوتے ہیں لڑکے والے جا تے ساتھ ہی جواب میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ بہت معذرت!!! استخارہ ٹھیک نہیں آیا لہذا یہ رشتہ نہیں کر سکتے یہ حالات ہیں…اوراستخارہ اس لییٹھیک نہیں آیا ہوتا کیونکہ لڑکے والوں کو جہیز میں فریج ٹی وی وغیرہ ملتا نظر نہیں آرہا ہوتا اللہ اللہ کر کے اگر ان سب آزمائشوں سے گزر کر لڑکی جب گھر چلی جاتی ہے تو ساس سسر نندیں شوہر سمیت چڑھائی جاری رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں یار سیدھی سی بات ہے یہ کون سا قانون ہے کہ ایسے اٹھو ایسے بیٹھو یہ رسم و رواج ہمارے ہیں انہیں شروع کرو جو رسم ورواج تمہارے ہیں انہیں چھوڑ دو ایسے کھاو ایسے پہنو.. اوپر سے شوہرکے الگ نخرے میرے ماں باپ کی خد مت کرو ان کی فرمانبرداری کرو کچھ شوہر حضرات تو ایسے ھوتیکہ اپنے والدین سے خود بھی بعض معاملات میں اتفاق نہیں کرتے مگر بیوی سے توقع رکھتے کہ مناسب وقت ماں باپ کے لیے نکالے اور ہرجائز ناجائز بات پر ہاں کرے…

میاں!!ماں باپ کی خدمت کا اتنا زیادہ شوق ہو رہا ہے تو خود کرو سارا سارا دن کرو کس نے روکا ہے کس نے منع کیا مگر بیوی پر دباؤ ڈال کر کہ تم یہ کرو ایسے نہیں کروائی جاسکتی ماں باپ کی خدمت. شوہر سے بیوی کو بھی پوچھنا چاہیے کہ آپ کون سا میرے ماں باپ کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں یہ آئینہ دکھانا چاہئے مگر ہمارے ہاں خواتین خاموش رہ کر نفسیاتی مریض بن جاتی ہیں مگر بول نہیں پاتیں. اور اگر شادی کے بعد کچھ عرصہ اولاد نہ ھو تو خواتین کیلییایک عذاب تیار رہتا اور اگر اولاد ھو جائیاور بیٹا نہ ھو تو مصیبت, بات طلاق تک نکل جاتی اور زیادہ تر تعداد ساسوں کی ہی ہوتی جو بیٹا نہ ہونے پر بہووں کا جینا حرام کر چھوڑتی ہیں باقی رہی سہی کسر خاندان کی آنٹیاں طنعے دے دے پوری کر دیتی کہنے کا مقصد ہے کہ خود عورت کو اپنا مقام پہچاننے کی اشد ضرورت ہے عورت کی اہمیت اسلام نے اجاگر کی مگر آج وہی گھر گھر گود بھرائی جوتا چھپائی اور کیا کیا عیر ضروری رسمیں ہم اپنا کر خود کو ماڈرن سمجھ رہے ہیں سب سے زیادہ موڈرن پن یہ ہے کہ عورت کو عزت اور تعظیم دی جائے.عورت کی خاموشی کو بولنیپہ مت مجبور کریں معاشرے میں جب عورتیں بڑے دل گردے کے ساتھ اپنے حق میں بول پڑتی ہیں وہی پھر کامیاب زندگی گزارتی ہیں ا ن میں سے اکثریت وہ ھوتیں ہیں جو اپنے پیروں پہ کھڑی ہوتی ہیں ورنہ طلاق کے خوف اور ماں باپ کی عزت بچانے کے چکر میں عورتیں ساری عمر ازیت میں بسر کر دیتی ہیں۔

Women's Rights

Women’s Rights

میری تحریر کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ گھروں میں جھگڑے شروع ہو جائیں صرف اور صرف شوہروں کو احساس ذمہ داری دلوانا ہے کہ آپ کی بیوی آپ کی دوست ہے آپ کی زندگی میں شامل ہیاسے برابری کے حقوق ملنے چاہیں. آپ کی بیوی آپکیخاندان کی اولاد کی جو خدمت اپنی خوشی سے کر سکے اسی پر اکتفا کریں خواتین کے اوپر دباؤ ڈال کر ان کو اپنے گھر والوں کی خدمت پر مت مجبور کریں اور اپنے گھروالوں سیبدظن نہ کریں خواتین کو عزت دیں تاکہ بدلے میں آپ کو بھی عزت دے سکیں اور اپکے عزیزوں کو بھی اور آپ کی آئندہ نسلوں کی بہتر پرورش کرسکیں سارا دن اگرخواتین باورچی خانے سے لے کر باورچی خانے میں گزاریں تو وہ صرف آپ کے بچے کی پرورش کرسکیں گے تربیت نہیں لہذا ماؤں سے التجا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی ہر ماحول میں ڈھلنے والی پرورش کرتی ہیں اپنے بیٹوں کو بھی صحیح غلط اور معاشرے میں ادب و احترام کا اصول سکھایں کہ وہ باہر کام کرنے والی خواتین کو ملک و قوم کا اہم رکن سمجھیں نا کہ انکا جینا حرام کر دیں بلکہ ان کے وقار میں اضافہ کریں تاکہ خواتین کے لئے باہر جا کر کام کرنے میں آسانی ہو کیونکہ ہر لڑکی جو باہر کام کرتی ہے شوقیہ کام نہیں کرتی اکثریت ان میں سے زمیداری کے بوجھ تلے دبی ہوتی ہیں مرد حضرات سے گزارش ہے کہ ملک و قوم کی خواتین کو عزت دینا سیکھیں تاکہ خواتین پورے عزم کے ساتھ اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں اور کامیابی سے آگے بڑھ سکیں اور خواتین سے بھی گزارش ہے کہ دل بڑا رکھیں کامیابی کی راہ میں مشکلات آنا کوئی بڑی بات نہیں اور ہم تو اس پاکستان بیٹیاں ہیں جسکی وزیر اعظم ایک خاتون رہ چکی ہیں ہمیں تو سر اٹھا کر فخر سے اس ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے اور جہاں اپنے حق اور عزت کی بات ہو خاموش نہ رہیں تا کہ آئندہ آنے والی خواتین کو اپنے حقوق کو حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے. بطور عورت اورماں اپنے بچوں کی پرورش خدا کیلیے مساوی اطوار سے کریں تاکہ لڑکی ہو یا لڑکا ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں۔

تحریر : شمع باسط