تنازع عید کے چاند کا

تنازع عیدکے چاند کا..!کیا پشاور والے چاندخان کو دیکھ کر عیدمنالیتے ہیں یا حقیقی عید کے چاندکو .؟
آہ ..آہ…ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے بعد اَب پہلی بار موبائلز سنگلز کی بھی لوڈشیڈنگ کا تحفہ….!!

تحریر: محمداعظم عظیم اعظم

Eid Ul Fiter Chaand - Moon

Eid Ul Fiter Chaand – Moon

اِس سال تو ماہِ شوال کے چاند کے معاملے میں خیبر پختونخواہ والوں نے سعودی عرب کو بھی پیچھے چھوڑدیااور اِس سے بھی ایک روز پہلے عیدمناکرایک نئی روایت قائم کرلی ہماری سمجھ میںتو یہ نہیںآرہاہے کہ اِس سال ہمارے خیبرپختونخواہ کے بھائیوں نے چاند خان کو دیکھ کر اپنے یہاں سعودی عرب سے بھی ایک دن پہلے عیدالفطر منانے کا اعلان کردیایا واقعی اُس روز اِنہیں عیدکا حقیقی چاند کہیں سے نظرآگیاتھا مگرہماری سمجھ میں یہ بھی تو نہیں آرہاہے کہ یہ چاندصرف خیر پختونخواہ والوں کو ہی کیسے نظرآگیاجب کہ جدیدسائنسی علوم سے آراستہ محکمہ موسمیات اور ماہرین فلکیات اِس چاند کو دیکھنے سے قاصر رہے اور یہ چاندکیساتھاجو اپنی پیدائش سے پہلے ہی خیبر پختونخواہ والوں کو نظر آگیااور اُنہوں نے سعودی عرب سے بھی ایک روز پہلے عیدمناکر اِسے بھی پیچھے چھوڑدیا…؟ ہمیں تو لگتاہے کہ خبیرپختونخواہ میں جن لوگوں نے 18اگست کو عیدمنائی اُنہوں نے یقینا عیدکے چاند کا الٹراساونڈ دیکھ لیاہوگا اور اُسی کو دیکھ کر ہی عید منالی …یا پھر اِن بھائیوں نے اُس لمبے ترین گنجے چاند خان کو دیکھ لیاہوگا جو سال بھر توپہاڑوں میں چھپارہتاہے اور سال میں صرف دومرتبہ ہی پہاڑوں کی اُوٹ سے اپناسر آہستہ آہستہ اوپراٹھاتاہے یعنی ایک مرتبہ ماہ شعبان کی آخری تاریخوں میں رمضان کے چاند کی صورت میں اور دوسری مرتبہ عیدالفطر کے چاند کی شکل میں اور باقی مہینوں میںیہ پہاڑ میں ہی سویارہتاہے یاپھرہمارے خیبرپختونخواہ کے بھائیوں نے اپنی انگلی پر کاغذکا چاندچپاکر یااپنی انگلی پر کسی مصورسے چاند بنواکراُسے آسمان کی جانب اشارہ کرکے اُسے ہی دیکھ لیاہوگااور اِس طرح اِنہوں نے چاندنظرآگیا…چاندنظرآگیا….کا شعور مچاکراپناکام چلالیااور بس…!!

بہرحال ..!اِس میں کوئی شک نہیں کہ عیدالفطر کا شمار مسلم اُمہ کے اَس عظیم مذہبی تہوار میں ہوتاہے جس کا نفس ہی چاردانگِ عالم میں اخوت ومساوات اور بھائی چارگی کا درس دینااور عفوودرگزر کواپناشعائربناکراِسے عام کرناہے مگرافسوس ہے کہ ہمارے یہاں ایسا ہوتانظرنہیں آتاہے اِس کی کیاوجہ ہے…؟یہ کوئی نہ تو سمجھ پایاہے …اور نہ ہی بتانے کے موڈ میں نظرآتاہے …سوائے اِس ایک نقطہ کے کہ اِس تہوار کی آمد کی اطلاع دینے والے چاند کو ہی ہمارے ایک صوبے پرانے سرحداور موجودہ خیبرپختونخواہ کے لوگ تعصب کی نظرکرکے اِسے متنازعہ بنادیتے ہیں اور پھراِس طرح اِس صوبے کے لوگ اپنے صوبے میں دو عیدیں کرکے اِس تہوار کی روح کو بھیمجروح کردیتے ہیں جو اِس کی اصل روح ہوتی ہے یوں اِس کے چاند کو متنازعہ بناکراِس تہوار کومسلم اُمہ سے ایک دوروز پہلے ہی اپنے اپنے لحاظ سے منانایہاں کے لوگوں کی ایک عادت سی بن گئی ہے یہ سلسلہ کوئی نیانہیں ہے بلکہ ہمارے اِس صوبے میں عیدالفطر کے موقع پر کئی سالوں سے ایساہوتاچلاآرہاہے اِس صوبے والے اِس تہوار کامزاح کرکراکرنے کے لئے ماہِ شعبان المکرم میں رمضان المبارک کا چانددیکھنے سے ہی اپنی تیاریاں شروع کردیتے ہیں اور ماہ ِ رمضان المبارک میں جب ساری مسلم اُمہ اپنے 29/30روزوں کی گنتی پوری کررہی ہوتی ہے تو ہمارے اِس صوبے کے لوگ اِن دنوں عیدمنارہے ہوتے ہیں اِس صوبے کے باسیوں کا تنازعہ رمضان اور عیدکے علاوہ باقی کے دس اسلامی مہینوں کے چاندوں پر نہیں ہوتا…ایسے میں یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ اِس صوبے کے لوگوں کو اگرتنازعہ ہوتاہے تو صرف اِن ہی دومہینوں رمضان المبارک اور شوال کے چاندوں پرہی اِن کا جھگڑاشدت کیوں اختیارکرجاتاہے…؟اِس حوالے سے جب اِن سے پوچھاجاتاہے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اِن کے نزدیک یہ ایسامحض اِس لئے کرتے ہیں کہ یہ لوگ رمضان اور عیدسعودی عرب کے ساتھ کرنے میںاپنے لئے فخرِ عظیم تصورکرتے ہیں…جس کاگزشتہ دنوں ثبوت اے این پی کے رہنمااور وفاقی وزیربرائے ریلوے غللام احمد بلور نے دیتے ہوئے واضح کردیاہے کہ خیبرپختونخواہ والے ایسا اِس لئے کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کالاکھ لاکھ شکراداکرتے ہوئے سُرخروہوجاتے ہیں کہ اِنہوں نے سعودی عرب کے ساتھ عید منائی ہے۔

افسوس ہے کہ ماہِ شوال کے چاند کے معاملے میںخیبر پختونخواہ والوںکا تنازعہ اِس سال تو اپنی حد کو پہنچ گیاجب اِس صوبے والوں نے بعض مقامات پر سعودی عرب سے بھی ایک دن قبل عیدمناکر ایک نئی ریت قائم کردی ہے جبکہ اِس کے بعد بھی اِس صوبے میںاگلے دو دنوں میں بھی مختلف مقامات پر نماز عید کااہتمام کیاگیااِس طرح اِس صوبے میں تین دن تک نماز عیدالفطر اہتمام کیا گیاجس پر وفاقی وزیراطلاعات ونشریات قمرزمان کائرہ نے بھی انتہائی محتاط انداز اختیارکرتے ہوئے اظہارِ خیال کیاکہ عیدالفطرمسلمانوں کے اِن تہواروں میںسے ہے جویکجہتی کی علامت ہے آج جب سائنسی علوم اپنے عروج پر پہنچے ہوئے ہیںمگرہم پھر بھی فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اُنہوںنے واضح طور پر کہاکہ مگر اِس کے باوجود بھی ہمارے ملک میں ایک صوبے کے اندرکچھ لوگوں نے اِس معاملہ کو بھی متنازع بنادیاہے جوبڑی افسوسناک بات ہے۔سمجھ نہیں آتاکہ جب محکمہ موسمیات اور ماہرین فلکیات واضح کرچکے تھے کہ پاکستان میں19اگست سے قبل ہلالِ عید نظرنہیںآئے تو پھر صوبے خیبرپختونخواہ والوں نے 18اور19اگست کیسے عیدمناڈالی…؟جس پر ملک کا ایک سنجیدہ اور باشعور طبقہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیامرکزی رویت ہلال کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے ملک میں فرقہ ورایت کو ہوادینے والی کسی گھناو¿نی سازش کا توشکارنہیں ہوئے ہیں…؟یااگر اِس صوبے کے باسیوں کے نزدیک رمضان المبارک اور عیدکا اہتمام سعودی عرب کے ساتھ کرناباعث سعادت ہے تو پھر اِنہیں یہ بھی سوچناچاہئے کہ یہ سال کے باقی دس مہینے بھی سعودی عرب کے ساتھ کرنے کا اہتمام کریں اور اِسی طرح ماہ رمضان میں سحری اور افطاری کے اوقات کار بھی سعودی عرب کے ساتھ نتھی کرکے اِن کا اہتمام یہاں کیاکریں…مگرایساکرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لیں کہ یہ رہتے ، کھاتے پیتے، پہنتے اُڑھتے، سوتے جاگتے، کماتے اور خرچ کرتے،مرتے جیتے اور اپنے بچے پیداتو پاکستان میں کرتے ہیںاورپاکستان کے قوانین کی پاسداری کرتے ہیںمگررمضان اور عیدکے معاملے میں سعودی عرب کی طرف کیوں دیکھتے ہیں…؟کہیںایساتو نہیں کہ یہ لوگ ایسامحض رویتِ ہلا ل کمیٹی اور مفتی منیب الرحمان سے کسی بغض کی وجہ سے کرتے ہیں…؟

اگر ایساہی ہے جیسی آج پاکستانیوں کی صوبے خیبرپختونخواہ والوں سے متعلق ایک سوچ اور فکرجنم لے چکی ہے تو پھر ہمارااپنی حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ خیبرپختونخواہ والوں کے رمضان المبارک اور عیدالفطر سے متعلق جلدبازی میں دیکھے جانے والے چاندوں سے جنم لینے والے انتشارکو ختم کرنے کے لئے ایسالائحہ عمل مرتب کیاجائے جس سے خیبرپختونخواہ والے آئندہ سال ایساکوئی عمل نہ دہرائیںجس سے صوبے میں پھر رمضان المبارک اور عیدالفطر کے چاند پر تنازعہ کھڑاہوجائے اور پھر اِس صوبے کے باسی تین عیدیںمنائیں ملک میں ایسادوبارہ ہونے سے بچنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ اِنہیں مجبورکیاجائے کہ وہ ہر حال میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ حتمی تسلیم کریںاور اُسی روز رمضان المبارک کے روزے رکھیں اور اُسی دن عید منائیںجب مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے مفتی منیب الرحمان اعلان کریں۔

جیسی اِس مرتبہ رمضان المبارک کے چاند کے موقع پر حکومتی کوشش کامیاب نظرآئی اور جس کاحوصلہ افزا نتیجہ کچھ یوں سامنے آیاکہ ملک بھر میں رمضان المبارک ایک ساتھ( یعنی ایک ہی دن) شروع ہوئے جس کے بعدہماری قوم میں یہ قوی اُمیدپیداہوگئی تھی کہ انشاءاللہ العزیزاِسی طرح عیدالفطر بھی سارے ملک میں ایک ساتھ منائی جائے گی جس سے ہم دنیا کو اپناایک یہ بھی پیغام چھوڑیں گے کہ خبردار ہم ایک قوم ہیں اورایک اللہ ، ایک رسولﷺ اور ایک قرآن کے ماننے والے لوگ ہیںکسی نے ہماری جانب اپنی میلی آنکھ سےبھی دیکھاتوہم اِس کا جینادوبھرکردیں گے اگرایساہوگیاتو یقینا ہماری اِس ملی یکجہتی اور اتحادویگانگت کے عظیم عملی مظاہرے کی کامیابی کا سہراہماری موجودہ جمہوری حکومت اور مرکزی رویتِ حلال کمیٹی کے ہی سرجائے گامگر افسوس ہے کہ عید کے چاند پر ایسانہ ہوسکا اَب آپ اِسے اپنی قوم کی بدقسمتی کہیں یا تباہی و بربادی کا ذریعہ کہ ہم نے عیدکے چاند کو جس طرح متنازعہ بناکر ساری دنیا میں اپنی قوم اور شعائرِ اسلام کو مذاق بناکر پیش کیاہے آج یہ بھی سب کے سامنے ہے جس کی مثال کہیں نہیں ملتی ہے یعنی ہماراملک پاکستان کی جس کل آبادی کم وبیش 19کروڑ کے قریب ہے اور یہ چار صوبوں سندھ ، پنجاب، خیبرپختونخواہ اوربلوچستان پر مشتمل ہے رکھنے اِس ملک میں اِس مرتبہ دونہیں بلکہ تین دن علیحدہ علیحدہ نمازعید کے اجتماعات منعقد کرکے عید منائی گئی سب سے پہلے ایک صوبے خیبر پختونخواہ میں ہفتہ18اگست، اورپھراُسی صوبے میں اکثر مقامات پراتوار19اگست کو بھی عیدکی نماز کے اجتماعات منعقدہوئے جس میںصوبے کے وزیراعلیٰ نے نماز عیداداکی جبکہ اِسی صوبے کے گورنر نے اِس روز روزہ رکھ کر اپنے تیس روزے پورے کئے اور اُنہوں نے پیر20اگست 2012کو تین صوبوں سندھ ، پنجاب اور بلوچستان سمیت ملک بھر میں منائی جانے والی عیدکے ساتھ عیدمناکر مکمل ملی یکجہتی اور اتحاد و یگانگت کا ثبوت دیا۔

ایک اور بات جو ہم کہناچاہیں گے وہ یہ کہ اِس سے ہم نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم ایک ایسی قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جو نہ صرف دنیاوی معاملا ت میں ہی نہیںبلکہ شریعت کے اٹل اصولوں میں بھی ہم بے صبری کا مظاہرہ کرنے والے مسلمان بن گئے ہیں جبکہ ہم اپنے ملی اوردینی معاملا ت میں زبانی کلامی متحدہو منظم ہونے کے دعوے تو بہت کرتے رہتے ہیں مگراِس پرسوائے ایک آدھ بار ہی عملی مظاہرہ کرکے تھک جاتے ہیں اور پھر وہی مرغی کی ایک ٹانگ والی ضدپر آڑکراور اپناطرہ اُونچارکھنے کی فکر میں اُس حدکو بھی پہنچ جاتے ہیںجس کی نہ تو شریعت ہی جازات دیتی ہے اور نہ ہی قانون ہی اپنے اندر کوئی گنجائش رکھتاہے۔

اَب جاتے جاتے ہم یہ بھی کہتے چلیں کے امسال ہماری قوم نے تین عیدیں مناکر جہاں ساری دنیامیں اپنے ملک کو طنزاور استہزاکا نشانہ بنایاتو وہیں ہمارے وفاقی وزیرداخلہ رحمن ملک نے بھی اِن تین عیدوںکے موقع پر عوام سے پیشگی معافی چاہتے ہوئے اپنی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی ماری قوم کو پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں دہشت گردی کے خطرات کے پیشِ نظر موبائلز فون سروس بندکرکے ایسا تحفہ دیاکہ جِسے قوم برسوں یادرکھے گی کیوں کہ وفاقی وزیرداخلہ کے اِس اقدام سے قوم بلبلااُٹھی اورچیخ پڑی کہ حکومت نے اپنے اِس اقدام سے بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے شکنجوں میں جکڑنے کے بعد اَب بہانے بہانے سے موبائلز فون سروس کی لوڈشیڈنگ کی بھی شروعات کردی ہے جس سے متعلق عوام میں یہ خدشہ شدت اختیار کرتاجارہاہے کہ آئندہ دنوں میں کہیں موبائلز فون سروس کی بارہ ، چودہ گھنٹوں کی اِس طرح کی لوڈشیڈنگ میں بھی مزیدتیزی نہ آجائے اور عوام ایک نئی پریشانی میں مبتلاہوجائیں عوام کو چاہئے کہ وہ ملک میں تین عیدیں منانے اور موبائلز فون سروس بندکرنے جیسے حکومتی اقدامات کے خلاف اُٹھ کھڑی ہواور حکومت سے مطالبہ کرے کہ وہ خیبرپختونخواہ والوں کو ہر حال میں مجبورکرے کہ وہ آئندہ مرکزی رویت ہلال کیمٹی کے ہر فیصلے کے پابندہوں اور اِسی طرح حکومت بھی آئندہ عیداور دیگر مذہبی تہواروںکے مواقعوں پر موبائلزفون سروس بندکرنے سے اقدام سے بھی اجتناب برتے۔

تحریر: محمداعظم عظیم اعظم