امریکا میں معاشی بحران پھر سر اٹھانے کو تیار

American Parliament

American Parliament

امریکا(جیوڈیسک)امریکا میں یکم جنوری 2013 سے مثر ہونے والے اخراجات میں بھاری کمی اور ٹیکس میں اضافے کو ٹالنے کی کوششیں جاری ہیں، ابھی تک کسی بھی سمجھوتے میں ناکامی پر دونوں سیاسی پارٹیوں ایک دوسرے کو ذمے دار ٹھرا رہی ہیں۔

سابق صدر جارج بش کے دور اقتدار میں امریکی عوام پر ٹیکس میں کٹوتی کی گئی تھی، ٹیکس کے اس نظام کی مدت دوہزار بارہ کے اختتام کے ساتھ ہی ختم ہو رہی ہے۔ امریکی حکومت ریپبلکن پارٹی سے کسی معاہدہ کی صورت میں اخراجات میں کٹوتیوں سے بچ سکتی ہے مگر اس پرحتمی فیصلے کے لئے آج آخری دن ہے اگر کوئی سمجھوتہ نہ ہوا تو یکم جنوری سے ملک بھر میں ٹیکسز میں اضافے اور سرکاری اخراجات میں کٹوتیوں کا ایک خودکار نظام نافذ ہوجائے گا جس کی مجموعی مالیت پانچ کھرب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اس اضافی بوجھ کو اقتصادی ماہرین “مالیاتی چوٹی” یا “فسکل کلف” کا نام دے رہے ہیں۔ معاہدہ ختم ہونے سے زیادہ تر امریکیوں کو پہلے سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔

صارفین کو اپنے اخراجات میں کمی کرنی ہو گی جس کا براہ راست اثر امریکی معیشت پر پڑے گا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے ری پبلکن پارٹی کے ارکان پر اخراجات میں کمی اور ٹیکسوں میں اضافہ کو منظور کرنے کے لئے دبا بڑھا دیا ہے اور کرسمس کی چھٹیوں کو قبل از وقت منسوخ کر کے ریپبلیکن پارٹی کے عہدے داروں سے ملاقاتیں بھی کی۔ تاہم ابھی تک کوئی بھی فیصلہ نہیں ہو سکا جس کی وجہ صدر اوباما نے ریپبلیکن پارٹی کی ہٹ دھرمی قرار دیا ہے۔

امریکی معیشت پر پڑنے والا کوئی بھی اثر عالمی معیشت کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔