امریکی اخبارات سے: صدارتی انتخابی مہم

american news

american news

امریکہ میں انتخابی مہم زور پکڑتی جا رہی ہے ، خاص طور پر جب سے ری پبلکنوں کے متوقع صدارتی امید وارمٹ رامنی نے وسکانسن کے رکن کانگریس پال راین کونائب صدر کے عہدے کے لئے امید وار چن لیا ہے۔ اخبار وال سٹریٹ جرنل کہتا کہ صدارتی دوڑ کی نوعیت ابتدا ہی سے اس درجہ منفی ہونے کی وجہ سے انتخابی مہم میں دونوں فریقوں کے لئے بھاری خطرے بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ اور موافق امکانات بھی۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پرسنگین حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ جن کا ہدف اس مہم میں شریک دوسرے ارکان سے کہیں زیادہ خود صدارتی امیدوار ہیں ۔ اور اخبار کے خیال میں اس سال اس قسم کے سنگین حملیعملی طور مفید مطلب ثابت ہو سکتے ہیں۔ سنہ 2012 کے صدارتی انتخابات کے بارے میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ چونکہ ووٹر تقریبا برابر برابر بٹے ہوئے ہیں ۔ اس لئیدونوں فریقوں کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہوگی کہ اپنے پکے ووٹروں میں جوش پیدا کیا جائے ۔ وجہ یہ ہے کہ رواں سال میں ایسے ووٹر عنقا ہیں ۔ جنہوں نے ابھی یہ فیصلہ نہ کیا ہو کہ انہیں کسے ووٹ دینا ہے۔ اور جنہیں آپ اپنا قائل کر سکیں ۔ لہذاانتخابی مہم میں اپنے ہی ووٹروں کی بیس میں ولولہ پیدا کرنے پر زور ہے۔
اخبارکہتا ہے کہ منفی لہجہ برقرار رکھنے سے مسٹر اوباما کی رجائیت کی اس سیاسی روش کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جس کی بدولت انہوں نے 2008 کے سیاسی منظر نامے میں اتنی عوامی مقبولیت حاصل کر لی تھی، اسی طرح قومی معیشت پر ، جو رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اس وقت مسٹر اوباما کی سب سے بڑی کمزوری ہے ۔ مسٹر رامنی کے موقف پرمنفی لہجے کی وجہ سیلوگوں کی توجہ نہیں جائے گی۔

ابتدا ہی سے اس منفی لہجے کا ایک نتیجہ یہ ہوگا کہ نومبر کے انتخابات تک دونوں امید وار ایک دوسرے کے ہاتھوں کافی مار کھا چکے ہونگے ۔ اور ووٹر وقت سے پہلے ہی تھک چکے ہونگے۔ جس کی وجہ سے ایسے ووٹر زیادہ تعداد میں اتخابات میں شرکت کرنے سے احتراز کریں گے جو اپنے من پسند امیدوار کیانتخاب نہ کر سکے ہوں۔ ایسے میں دونوں کے لئے اپنے پکے ووٹروں کو انتخاب میں شرکت کرنے پر تیار کرنے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر رامنی کی انتخابی مہم کا زور مسٹر اوباما کیمنفی پہلوں کو اجاگر کرنا ہے، جو بقول اخبار کے ذاتی طور پر ابھی بھی خاصے مقبول ہیں۔باوجودیکہ رائے عامہ کے جائزوں میں ان کی کارکردگی کا گراف بدلا نہیں ہے۔

ادھر اخبارواشنگٹن ٹائمزکے مطابق ریپبلکن صدارتی امیدا وار مٹ رامنی نے جب رکن کانگریس پال راین کانائب صدر کے عہدے کے لئے انتخاب کیا، تو اس کے بعد ہونے والے رائے عامہ کے ایک جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ پال راین کی ریاست وسکان سن میں ماسٹر اوباما کو مٹ رامنی کے مقابلے میں چار پواینٹس کی فضیلت حاصل ہے۔ سنہ 2008 کے انتخابات میں مسٹر اوباما کو اس ریاست میں 14 پواینٹس کی برتری سے کامیابی ہوئی تھی ۔ اس جائزے میں شرکت کرنے والے رجسٹرڈ ووٹروں میں سے، 49 فی صد نے صدر اوباما کے حق میں ووٹ ڈالا، جب کہ مسٹر رامنی کو 45 فی صد ووٹ ملے۔

یو ایس ٹوڈے نے ایک ادرایے میں امریکہ کے لئے یورپ کی معیشت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یورپ اس وقت جس اقتصادی کشمکش کے دور سے گذر رہا ہے۔ امریکہ کی معیشت اس کے عواقب سے محفوظ نہیں ہے۔

بہت سے لوگوں کی پیش گوئی ہے کہ یورو کی کرنسی کمزور ہونے کی وجہ سے یورپ کساد بازاری کا شکار ہو جائے گا۔ چنانچہ یورپ کی مشکلات کا مطلب ہوتا ہے امریکہ کی مشکلات۔ کیونکہ اتنی ساری امریکی کارپوریشنوں کا یورپ میں سرمایہ لگا ہوا ہے۔ امریکی کمپنیاں جب پیٹ پر پتھر باندھنے لگیں ۔ تو اس کا مطلب ہوتاہے کہ وہ کم لوگوں کو ملازم رکھیں گی ۔ کچھ ملازموں کو نکال بھی دیں گی۔ منافع نہ دینے والی کمپنیوں کو پیسہ دینا بند کر دیں گی۔ اور سروسز میں کٹوتی کریں گی۔ان تبدیلوں سے امریکی متاثر ہوتے ہیں۔ سیاہ فام امریکی خاص طور پر بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔

اخبار کہتا ہے تاریخ گوا ہ ہے کہ جب روز گار کیمواقع پیدا ہوتے ہیں ۔ تو سیاہ فام افراد کو سب سے آخر میں ملازمت ملتی ہے ، اور جب چھانٹی کرنی ہوتی ہے۔ تو سب سے پہلے سیاہ فام امریکیوں ہی پر اس کانزلہ گرتا ہے۔ اس وقت امریکہ میں بے روزگاری کی اوسط شرح آٹھ اعشاریہ تین فی صد ہے۔ لیکن سیاہ فام امریکیوں میں یہ شرح چودہ اعشاریہ ایک فی صد ہے۔