بیگم اختر

Begum Akhtar

Begum Akhtar

بیگم اختر مشہور گلوکارہ تھیں جن کی آواز میں ایسی شعلگی جاگزین تھی جو سامع کے دل کو پگھلا کراس میں سوز بھر دیتی ہے۔ بیگم اختر نے چار دہائیوں تک سر اور ساز و آواز کی خدمت انجام دی اور اس کے صلے میں انہیں کروڑوں قدر دانوں کا پیار ملا۔

اختری بائی فیض آباد ی کی پیدائش سات اکتوبر 1914 کو اودھ کے تہذیبی قصبہ فیض آباد کے ایک متوسط گھرانے میں ہوئی تھی۔ اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ یہ ننھی بچی اختری بائی آسمانِ گلو کاری پر چاند بن کر چمکے گی اور نصف صدی تک سامعین کے ذہن و دل پر ملکہ غزل بن کرحکمرانی کرے گی۔

بیگم اختر کو قدرت نے بے حد سریلی آواز عطا کی تھی اور ان کو گانے کا بے حد شوق تھا۔ اسی لیے ان کے چچا نے انہیں سارنگی کے مشہور استاد امداد علی خاں کے پاس پٹنہ بھیجا، جہاں انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں پٹیالہ گھرانے کے عطا محمد خاں نے ان کی تربیت کی۔

بیگم اختر نے اپنا پہلا عوامی پروگرام صرف 15سال کی عمر میں بہا ر کے زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے کلکتہ میں کیا تھا۔ ان کی فنی مہارت دیکھ کر بلبلِ ہند سروجنی نائڈو نے کہا تھا کہ آپ کے گلے کی تربیت تو قدرت نے خود کی ہے، اس میں جو سوز و ساز ہے وہ بالکل فطری ہے اور انسان کو مسحور کر دیتا ہے۔
یوں تو بیگم اختر نے کلاسیکی موسیقی کی بھی تعلیم حاصل کی اور ان کو ٹھمری اور دادرا گانے میں کمال حاصل تھا مگر ان کی اصل شناخت غزل گائیکی کے سبب ہے۔ غزل کے اشعار کی ادائیگی میں انہیں جو کمال حاصل تھا، وہ اب تک کسی گلو کار کو حاصل نہیں ہو سکا۔ شاید اسی لیے کیفی اعظمی کہتے تھے میرے نزدیک غزل کے دو معنی ہیں۔ ایک تو لغوی یعنی معشوق سے باتیں کرنا اور دوسرے بیگم اختر۔

یوں تو انہوں نے بہت سے شعراکی غزلیں گائی ہیں لیکن بہزاد لکھنوی کی 100سے بھی زائد غزلوں کو انہوں نے اپنی آواز دے کر ان میں نئے مفاہیم پیدا کر دیے۔ ان کی ریشمی آواز میں بہزاد کی غزلوں کا ذائقہ ہی کچھ اور ہے:
دیوانہ بنانا ہے تو دیوانا بنا دے
ورنہ کہیں تقدیر تماشا نہ بنا دے
اے دیکھنے والوں مجھے ہنس ہنس کر نہ دیکھو
تم کو کہیں تقدیر بھی مجھ سا نہ بنا دے

بیگم اختر کا فن عروج پر تھا تب انہوں نے لکھنئو کے ایک نامور فرزند بیر سٹر اشتیاق احمد عباسی سے 1945 میں شادی کر لی۔ چونکہ عباسی صاحب کا خاندان پرانے خیالات کا تھا۔ اس لیے ان کے گانے بجانے پر پابندی لگا دی گئی۔ اس طرح وہ پانچ برسوں تک ساز و آواز کی دنیا سے قطعی الگ رہیں۔ لیکن لحن،ساز اور موسیقی بیگم اختر کی شریانوں میں رچ بس گئے تھے۔ اس لیے ان سے الگ رہ پانا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔

لیکن ایک روز وہ شدید طور پر بیمار ہو گئیں، یہاں تک کہ ڈاکٹروں نے بھی مایوسی کا اظہار کر دیا۔ تب انہیں لکھنئو ریڈیو اسٹیشن پر ایک پروگرام میں شرکت کا موقع ملا اور وہ دادرا پیش کرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔ لیکن اس کے بعد ہی وہ صحت یاب ہوتی گئیں اور انہوں نے اپنا گانا بجانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

ان کے سوز کو محسوس کر کے فلم ساز بھی ان کی جانب متوجہ ہوئے اور ان کی آواز سے استفادہ کرنے کے علاوہ انہیں فلموں میں کام کرنے کا بھی موقع ملا۔ بیگم اختر نے ایک دن کا بادشاہ ( 1930)، ممتاز بیگم (1934)، امینہ ( 1934 )، روپ کماری ( 1934 ) جوانی کا نشہ ( 1935)، نصیب کا چکر (1936)، نلدمینتی (1937)، انار بالا ( 1940 ) روٹی ( 1942 ) اور جل ساگر (1958 میں کام کیا۔

اس زمانے میں اداکارخود ہی اپنے گانے گایا کرتے تھے اور پس پردہ گلو کاری کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا، اس لیے ان فلموں میں اپنے گانے بھی بیگم اختر نے خود ہی گائے تھے۔
تاہم فلموں کا ماحول بیگم اختر کے مزاج کے مطابق نہیں تھا اس لیے 1958 کے بعد انہوں نے فلم لائن کو خیرباد کہہ دیا لیکن گلو کاری کا سلسلہ جاری رکھا اور مختلف کمپنیاں ان کے گانوں کی صدا بندی کرتی رہیں۔

بیگم اختر نے میر تقی میر سے لے کر غالب، سودا، مومن کے علاوہ ہم عصر شعرا کی غزلوں کو اپنی آواز دے کر ان کے نئے معنی پیدا کر دیے۔ فیض احمد فیض اور شکیل بدا یونی کی انہوں نے متعدد غزلیں گائی ہیں۔ مثلا فیض کی
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عزا ب آئے یا
مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
اور شکیل بدایونی کی
کچھ تو دنیاکی عنایات نے دل توڑ دیا
اور اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

بیگم اختر نے اپنا آخری پرو گرام 30اکتوبر 1974 کو احمد آباد میں پیش کیا تھا وہیں ان کا دل کا شدید دورہ پڑا اور یہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ انہوں نے جو آخری غزل گائی وہ کیفی اعظمی کی تھی :
سنا کرو مری جاں ان سے ان کے افسانے
سب اجنبی ہیں یہاں کون کس کو پہچانے