سیاست، سیاست ہے

pakistan

pakistan

پاکستانی عوام بھی کتنی بھولی اور اچھی ہے کہ وہ ہرگزرے دور کو اچھا اور موجودہ دور کو گزرے ہوئے دورسے موازنہ کرکے موجودہ دور کو کوس کر دل کا غبار نکال لیتی ہے ۔ آج سے دس سال پہلے عوام کی زبان پر یہ الفاظ ہوتے تھے ”لوجی مشرف کی حکومت گئی تو ملک کی تقدیر سنور جائیگی”۔ ان فقروں سے معلوم ہوتا تھا جیسے آنے والی حکومت پاکستان میں دودھ کی نہریں نکال دے گی۔ پھر اللہ کا کرنا ایساہوا کہ مشرف کے اقتدار کے خاتمے کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی اور پاکستان میں ایک بارپھر الیکشن کا کھیل شروع ہوا اور اس بار کوئی جماعت اکیلی اپنی حکومت بنانے میں کامیاب تو نہ ہوئی مگر وقت کے تقاضے نے ہمیشہ کی دومخالف جماعتوں کو اقتدار کی کرسی کی خاطر ایک جگہ اکٹھا ہونے پر مجبور کردیا۔

مرکز میں پیپلز پارٹی نے اپنے جھنڈے گاڑھ دیے اور صوبوں میں مختلف پارٹیوں نے اپنا اپنا قبضہ جمالیا۔ اس دوران چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی کی تحریک بھی بڑی زوروں پر تھی۔ نئی حکومت کے قیام کے فوراًبعد نوازشریف نے چیف صاحب کو بحال کرانے کے لیے لانگ مارچ کرڈالا جس کے جواب میں مشرف اور موجودہ حکومت کو مجبوراً یا مصلحتاً چیف جسٹس کو بحال کرنا پڑا ۔ اس کے بعد عوام کو چیف صاحب پر یہ یقین ہو گیا تھا کہ اب کسی بھی فیصلے میں کوئی تاخیر اور دھاندلی نہیں ہوگی اور چیف صاحب کرپٹ لوگوں کے خلاف ایک طاقتور ہتھیار ثابت ہونگے مگر سیاست کیا گل کھلاتی ہے ؟ یہ کسی کو نہیں پتا تھا ۔ مشرف کی کرسی خالی ہوتے ہی زرداری نے کرسی سنبھال لی اور صدر پاکستان بن گئے۔ جبکہ اس کے ساتھ ہی عدالت عالیہ میں این آر او کیس منظر عام پر آگیا۔

لوگوں کو توقع تھی کہ اب این آر او کیس کا فیصلہ جلد ہوگا اور لوٹا ہوا پیسہ ملک میں واپس آئیگا۔ این آر او کیس ابھی فائنل نہیں ہوا تھاکہ اس دوران میمو کیس عدالت کی زینت بنا اور اس کیس میں جتنی دلچسپی حکمرانوں کی تھی ۔ اس سے کہیں زیادہ چرچا عوام کی زبان پر تھا۔ ہر محفل میں اور میڈیا پر بھی چوبیس گھنٹے اس پر بحث ہوتی رہی مگر عوام کو کیا معلوم کے یہ کس کڑی سے جڑا ہو اہے ؟ عوام اب این آر او کو بھول کر میمو کمیشن کے چکر میں پڑ گئی ۔

اپوزیشن یہ سمجھنے لگی کہ اگر این آراوکیس میں حکومت نہیں گئی تو میموکیس پر چلی جائے گی۔ اس کیس میںکوئی ان تو کوئی آوٹ ہورہاتھا کہ اچانک توہین عدالت کی آواز بلند ہوگئی۔ یوں سب باتیں بھول کر ہر طرف توہین عدالت کا ڈھول بجنے لگا اور آخر کار وزیرا عظم پر توہین عدالت ثابت ہوئی ،۔ جج صاحبان نے وزیراعظم کو چند سیکنڈ کی سزا سنا دی۔ یہ سزا تو عام آدمی کے لیے برائے نام تھی مگر وزیراعظم کے عہدے دار کے لیے تو عزت پر ایک دھبہ ہی کافی ہوتا ہے۔ سزا کے بعد اپوزیشن نے سوچا تھا کہ شاید اب حکمران فارغ ہوگئے مگر سیاست کا کھیل بڑابرا ہوتاہے ۔ اس میں کس وقت کیا ہوجائے ؟یہ اتنی جلدی کوئی نہیں بتا سکتا ۔ ابھی جب میڈیا اور اپوزیشن نے اس سزا کے خلاف بولنا تھا مگر ادھر بھی سیاست نے کام دکھایا اور وزیراعظم نے اپوزیشن کے عوام کی طرف جانے سے پہلے ہی ایک نئی چال چل دی اور اسمبلی میں سرائیکی صوبے کا باقاعدہ اعلان کردیا۔

کڑی سے کڑی مل کر زنجیر بنتی ہے ۔ شاید پی پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی کڑی سے کڑی مضبوطی سے جڑی ہے اسی لیے ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی میں سرائیکی صوبے کی قرار داد لا کر اسے منظور بھی کراڈالا۔ اب وہ عوام جو کبھی این آر او ۔ کبھی میمو کمیشن اور کبھی توہین عدالت کے چکر میں پڑی ہوئی تھی وہ سب باتیں بھول کر ایک نئی لائن پرچل پڑی اور اب اخبارات ہوں یا ٹی وی چینل، دیہاتوں کے چوراہے ہو یا شہروں کی محفلیں سب جگہ ایک ہی چرچا چل رہا ہے اوروہ جنوبی پنجاب صوبے کا عوام جو اپنا آپ بھول کر ان سیاستدانوں کی باتوں میں آکر خوب بیوقوف بن رہی ہے۔

تمام سیاستدان ایک ہیں خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں۔ پاکستان میں ابھی تک کوئی ایسا سیاستدان نہیں جو امریکی غلامی سے نجات حاصل کرنایا کرانا چاہتا ہو۔سب کا یک نکاتی ایجنڈا ہے اور وہ ہے ”حصول اقتدار ”۔ عوام جتنی ان سیاستدانوں کے پیچھے جمع ہوتی ہے اس سے بہتر تھا کہ وہ اپنے مفاد کے لیے اکٹھی ہوکیونکہ ہر ماہ عوام پر بجلی اور پٹرول کا بم گرتا ہے ، بجلی نام کی چیز ملک میں نہیں،بے روزگاری کی وجہ سے لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں ۔لیکن سیاست ،سیاست ہے کیونکہ ہم لوگ اپنے مسائل پر ایک نہیں ہوسکتے لیکن ان سیاستدانوں کے ایک اشارے پر لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے۔تحریر : عقیل خان
columnistcp@gmail.com,
0301-4251658