شام کا ترک علاقے پر حملہ، 5 ہلاک ، ترکی کی جوابی کاروائی

Syria Assault Turkey

Syria Assault Turkey

شام (جیوڈیسک) ترکی اور شام کی سرحد کے قریب واقع ترک قصبے میں شامی گولہ باری سے پانچ افراد کی ہلاکت کے بعد ترکی نے بھی جوابی کارروائی کے طور پر شامی علاقے میں اہداف کو نشانہ بنایا.یہ گولے بدھ کو شامی علاقے تل العبیاد سے ترک قصبے اکساکیل کی جانب داغے گئے۔تل العبیاد کے علاقے میں شامی افواج اٹھارہ ماہ سے جاری مزاحمتی تحریک کو کچلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ترک حکام کا کہنا ہے کہ شام کو اس واقعے کا حساب دینا ہوگا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ ترک افواج نے اپنی سرحد کے ساتھ ساتھ ان اہداف پر گولہ باری کی جن کی نشاندہی ریڈار نے کی تھی۔ نیٹو کا کہنا ہے کہ وہ اس صورتحال پر ایک ہنگامی اجلاس طلب کر رہا ہے۔ ترکی کے نائب وزیراعظم بلندآرنک نے کہا کہ شام کو اس واقعے کا حساب دینا ہوگا اور اس کا جواب بین الاقوامی قوانین کے مطابق دیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد داد اوغلو نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون، شام کے لیے خصوصی ایلچی اخضر ابراہیمی اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندریس راسموسین سے رابطے کیے ہیں۔ ترکی کے سرحدی علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں شامی پناہ گزین موجود ہیں۔

نیٹو کی ایک ترجمان کے مطابق اتحاد کے سیکرٹری جنرل نے ترک وزیرِ خارجہ کو بتایا ہے کہ وہ اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور وہ خطے میں پیش آنے والے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ آندریس راسموسین بارہا کہہ چکے ہیں کہ اگرچہ نیٹو شام میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا لیکن ضرورت پڑنے پر ترکی کے دفاع کے لیے تیار ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اکساکیل کا علاقہ کئی مرتبہ ہدف بن چکا ہے۔ ترک حکام نے مقامی آبادی کو سرحد سے دور رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے علاقے میں سو سے زائد سکول بھی بند کر دیے ہیں۔ شام میں حکومت مخالف تحریک کے آغاز کے بعد سے یہ ترکی میں شامی جانب سے فائرنگ یا گولہ باری سے ہلاکتوں کا دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل اپریل میں شامی جانب سے کی گئی فائرنگ سے دو شامی باشندے ترک سرزمین پر مارے گئے تھے۔ ترکی اس وقت شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے چند ممالک میں سے ایک ہے۔ شام سے اب تک لاکھوں افراد تشدد سے تنگ آ کر نقل مکانی کر چکے ہیں اور اقوامِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق سالِ رواں کے اختتام پر یہ تعداد سات لاکھ تک پہنچ جائے گی۔