علّامہ ابوالامتیاز ع س مسلم کی علمی و ادبی خدمات کو خراجِ تحسین

dubai Function

dubai Function

عظیم المرتبت مفکر، ادیب، شاعر، فلاح کار، عالم، فاضل اور مفسر علّامہ ابوالامتیاز ع س مسلم کی علمی و ادبی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں دبئی، متحدہ عرب امارات کی مہمان نواز فضا میں، ملت کا درد رکھنے والے چند منچلے پاکستانیوں نے کمالِ جرئت اور حسنِ خیال کی پرواز سے سرشار ہوکر، ایک نادر الوقوع اور تاریخی روایت کی بنیاد قائم کردی۔انہوں نے ابوالامتیاز ع س مسلم کو دعوت دے کر ایک بھرپو ر محفل میں ان سے فی زمانہ پیش آمدہ آشوبِ ملک و ملت کے تناظر میں،بحضورِ باری تعالیٰ میں ان کی مناجات ”بردرِکعبہ” پڑھنے کی تقریب منعقد کی۔ یہ مناجات کم و بیش 210 اشعار پر مشتمل ہیں اور نہایت ْ پر اثر، اور حقیقتِ حال پر مبنی ایک فریاد ہے۔ اہلِ علم و فکر پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد نے نہایت دلچسپی سے محویت کے عالم میں اْسے سنا۔ اور ماہرین کا کہنا تھا کہ اردو ادب کی تاریخ میں شاید گذشتہ ایک صدی کے دوران میں ایسی آشوبِ ملت او ر طویل اور ْ پر تاثیر محفل کبھی منعقد نہیں ہوئی۔ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ فکری اور ذہنی تربیت کے لیے ایسی محافل کا وقفے وقفے سے انعقاد نہایت مفید اور مؤثر ہوگا۔

ع س مسلم اردو، پنجابی اور انگریزی زبان میں پچاس سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔ حمدونعت اْن کا خاص موضوع ہے، لیکن تحقیق و تنقید، شعر و ادب، سفرناموں، مقالات، سیاسی و مِلّی مضامین اور بچوں سے متعلق ہر موضوع پر قلم اْٹھایا ہے۔ آپ کا اصل نام عبدالستار، کنیت ابوالامتیاز اورقلمی نام ابوالامتیاز ع س مسلم ہے۔ آپ کی مختلف تصانیف پر پاکستان اور بیرونی ممالک میں متعدد لوگ پی ایچ ڈی اور ایم ِ فل کرچکے ہیں۔ علم و ادب او ر حمدونعت پر تصانیف کا سلسلہ تاحال جاری ہے، 93 سال کی عمر میں آج بھی ع س مسلم پوری تندہی کے ساتھ نوجوانوں کی طرح کام کررہے ہیں۔

آپ کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید ہفت روزہ ”ندائے ملت” لاہور کے شمارہ دسمبر 2008 ء میں رقمطراز ہیں کہ :علّامہ ابوالامتیاز ع س مسلم پاکستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں باوقار مقام پر فائز ہیں اور اپنے علمی و ادبی، تحقیقی و تنقیدی، سماجی اور تہذیبی و سیاسی مضامین کے بلند معیار کی وجہ سے انہیں قومی اور بین الاقوامی اردو حلقوں میں خصوصی امتیاز حاصل ہے۔ ان تمام اوصاف کی وجہ سے مَیں نے آج پہلی دفعہ ان کے نام کے ساتھ ”علّامہ” کا سابقہ درج کیا ہے۔

مجھے توقع ہے کہ اہلِ ادب اسے نظرِ دوام عطا فرمائیں گے۔علّامہ ابوالامتیاز ع س مسلم کی علمی و ادبی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے اعزاز میں 28۔ اپریل 2012 ء کو د بئی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں منعقدہ خوبصورت تقریب ہوئی جس کا اہتمام ”ورلڈ رائٹرز فورم متحدہ عرب امارات” نے کیا تھا۔ اس تقریب میں پاکستان سے معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی، شاعرعزیر احمد اور جانے پہچانے ٹی وی اینکر، شاعر، ادیب و کالم نگار اوریا مقبول جان نے خصوصی شرکت کی، جبکہ متحدہ عرب امارات کی ساتوں ریاستوں سے اردو ادب اور ع س مسلم کے چاہنے والے بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ علّامہ ابوالامتیاز ع س مسلم کے اعزاز میں منعقدہ اس تقریب میں ورلڈ رائٹرز فوم متحدہ عرب امارات کے سرپرستِ اعلیٰ چودھری نور الحسن تنویر اور ورلڈ رائٹرز فورم متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد پرویز نے علّامہ ع س مسلم ، عطاء الحق قاسمی، اوریا مقبول جان اور دیگر مہمانوں کو اسٹیج پر خوش آمدید کہا۔ پروگرام کی نظامت کے فرائض طاہر منیر طاہر نے انجام دیئے۔

تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا جبکہ نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلّم ، جناب ع س مسلم کے کلام سے ہی منتخب کرکے پڑھی گئی۔ اس موقع پر ورلڈرائٹرز فورم یو اے ای کے صدر شیخ محمد پرویز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علّامہ کی فکر روحانیت، تصوف، وجدان اور سرور کی کیفیت سے بھرپور ہے اور دل پر اثر کرتی ہے۔ علاّمہ جس طرح فارسی، اردو، عربی، پنجابی اور ہندی کے الفاظ کا برمحل استعمال کرتے ہیں وہ اردو ادب میں بہت کم پڑھنے کو ملتا ہے۔ علّامہ کی سیاحت اور فکر پر مبنی جغرافیائی، تاریخی اور روحانی سفرنامے آپ کی عظمت اور مشاہدہ کی گہرائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جبکہ علّامہ ع س مسلم کی لکھی ہوئی حمدیں اور عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وسلّم میں ڈوبے ہوئے نعتیہ اشعار پڑھ کر روح ہمہ دم معطر ہوجاتی ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ علّامہ ابوالامتیاز ع س مسلم کا سایہ ہم پر تا دیر قائم رکھے اور آپ کی فکر ملتِ اسلامیہ کے قلب و روح کو روشن کرتی رہے۔ آمین۔

پروفیسر وحید الزمان طارق نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”بردرِ کعبہ” جناب ع س مسلم کی ایک طویل نظم ہے جسے مناجات کہیں کہ حمد، شکوہ و جوابِ شکوہ کہیں یا حمد و دعا، یہ قاری کی صوابدید پر مبنی ہے۔ یہ نظم 210 اشعار پر مشتمل ہے اور فردوسی کے شاہ نامہ یا سعدی کی بوستان کی بحر میں لکھی گئی ہے۔ مسلم صاحب کو ایک مکاشفے میں وسعتِ کائنات کا مشاہدہ ہوتا ہے جس میں وہ خود کو ایک ذرّے کی صورت میں پاتے ہیں اور پھر اس ذرّے کا مشاہدہ بقولِ مولانا روم اس انداز سے کرتے ہیں:

ہر کہ را در سینہ باشد فتح یاب
او زہر ذرّہ بہ بیند آفتاب
پھر وہ باری تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہیں ع س مسلم کے قلم سے اقبال کے کلام کی بازگشت ہمیں یوں سنائی دیتی ہے :
ْ تو واسعِ رحمت ہے ِ تہی مَیں ہوں عمل سے
ْ تو ْ نور علیٰ ْ نور مَیں پرورد ظْلمات
پھر زیست نئی بخش ِ مری رْوح کو یارب
شاداب کریں دِل کو ترے لْطف کی نفحات
صَد حسرتِ ناکام لئے ِ پھرتا ہوں دِل میں
ْ تو صاحبِ احسان ہے، ْ تو قاضیء ِ حاجات
طوفان بپا دل میں ہے، لب َ عجز سے خاموش
ْ تو مجھ سے زیادہ ہے مِرا واقفِ حالات
صدقے میں محمد کے ہمیں بخش دے یارب
وہ رحمتِ عالم وہ سزاوارِ شفاعات
اے میرے خدا بخش دے ہر درد کا درماں
سو طرزِ نوا میں ہے میری ایک مناجات
پھر ملتِ اسلام پہ رحمت کی نظر ہو
پھر مسلم دلگیر کی آہوں میں اثر ہو

ع س مسلم ایک کثیر الجہات شخصیت ہیں۔ وہ عالم، فاضل، مفسر، متکلم، مصنف ، ادیب اور ایک ایسے شاعر ہیں جو علوم و فنون کے کوہ ہمالیہ پر متمکن نظر آتے ہیں۔ وہ نعت گوئی کی ایک ایسی منفرد اور توانا آواز ہیں جس سے نہ صرف اردو زبان و ادب کا نعتیہ سرمایہ باثروت ہوگیا ہے بلکہ مستقبل کے نعت لکھنے والوں کے لیے نعت کے علمی، ادبی اور فکری پہلوؤں کی تفہیم اور تخلیق بھی آسان ہوگئی ہے۔

چودھری محمد منیر انور نے اپنی تقریر میں کہا کہ بعض دانشور اور اہلِ علم حکومت کی خوشنودی حاصل کرکے القاب و خطاب حاصل کرتے ہیں اور بعض علمی و ادبی اور سماجی ادارے ان کے کارناموں کی وجہ سے انہیں القاب و خطاب عطا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو القاب و خطاب اور نام و نمود کی پرواہ نہیں کرتے اور اپنے آپ کو پیہم بے نام و نشان رکھتے ہیں، مگر جن کے عشق میں یہ لوگ بے نام و نشان مٹ جاتے ہیں وہ انہیں ایسا چمکاتے ہیں اور ایسا نام و نشان عطا فرماتے ہیں کہ ان کی چمک اور ان کی ضیاء حاصل کرنے والے بھی آفتاب و ماہتاب بن جاتے ہیں۔ اور ان کے نام لیوا شہرت و ناموری کے بام رفعت پر کمندیں ڈالتے اور آسمانِ شہرت پر اپنی عظمت کے جھنڈے لہراتے ہیں۔ بلاشک و ابہام ع س مسلم کی شخصیت بھی ایسی شخصیتوں میں سے ایک ہے۔ یہ محض اللہ کا کرم ہوتا ہے جس کی بناء پر کسی شخص پر علم و حکمت کے ایوان کھلتے ہیں اور اسے تفکر و تدبر و اظہار کی توفیق ملتی ہے۔

ع س مسلم کی نعت عقیدت و عقیدہ دونوں کی مظہر ہے۔ عقیدہ یا کسی نقط ء نظر کے بغیر ادب وجود میں نہیں آسکتا۔ عصرِ حاضر کے عظیم نقاد ڈاکٹر وزیر آغا مرحوم نے ادب کی تخلیق کے لیے نقطء نظر اور ادب کے وجود پزیر ہونے کے لیے عقیدہ کو لازمی قرار دیا ہے۔ مزید برآں صاحبِ علم و ادب و فن کے نظریات سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ مذہبی و تقدیسی شاعری اور بالخصوص نعت کے لیے عقیدہ کا اظہار ایک لازمی امر ہے۔ البتہ یہ احتیاط ضروری ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلّم کے تعلق سے انہی عقائد کو بیان کیا جائے جو قرآن و سنت اور اجماعِ ملت سے ثابت ہیں۔

ورلڈ رائٹرز فورم کے سرپرستِ اعلیٰ اور سیاسی و سماجی شخصیت چودھری نور الحسن تنویر نے حاضرینِ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علّامہ ابوالامتیاز ع س مسلم عہدِ حاضر کی عظیم علمی ادبی اور سماجی شخصیت ہیں جنہوں نے علم و ادب کے میدان میں بے مثال کارنامے انجام دیے ہیں۔ بالخصوص حمدِ باری تعالیٰ اور نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلّم کے سلسلے میں وہ پاکستان میں چوٹی کے چند شعراء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ع س مسلم اپنی عمرِ عزیز کے 93 سال پورے کرچکے ہیں اور اْنہیں 1943 ء کے آل انڈیا مسلم لیگ کے کراچی میں سالانہ اجلاس منعقد کراچی سے 1948 ء میں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی وفات تک آپ کے سپاہی کی طرح قومی خدمت سرانجام دینے کا شرف حاصل ہے۔

ع س مسلم جیسی باکمال ہستی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آج کی نوجوان نسل کو پاکستان کی نظریاتی اساس کو اْن سے سمجھنے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔ ان کے تجربے اور تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہماری دنیا اور آخرت سنور سکتی ہے اور ہم سچے پاکستانی بن سکتے ہیں۔

چودھری نور الحسن تنویر نے مزید کہا کہ علّامہ ع س مسلم اور ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہمارے لیے باعثِ سعادت ہے۔ آپ دراصل ملک اور قوم کے ہیرو ہیں جن پر ہم بحیثیتِ مسلمان اور بحیثیتِ پاکستانی ناز کرسکتے ہیں۔ آپ ہماری آئندہ نسلوں کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔ توصیفِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، محبوبیت، وارفتگی ، وسیلہ، استمداد، شفاعت ، عقیدہ نور، حاضر و ناظر، حیات النبی ، قاب قوسین و اولیٰ جیسے عقائد کا اظہار اور مسرتِ دیدار کے لمحوں کا گداز ”زَبورِ نعت” میں جا بجا نظر آتا ہے۔ چودھری نور الحسن تنویر نے کہا کہ یہ امر ہمارے لیے باعثِ مسرت ہے کہ ہم ادبی تنظیم ورلڈ رائٹرز فورم کے زیر اہتمام جناب ع س مسلم کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں عالمی تقریب منعقد کررہے ہیں۔

معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے بھی اپنی تقریر میں جناب ع س مسلم کو بڑے اچھے الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا جبکہ شاعر و کالم نگار اوریا مقبول جان نے علامہ ع س مسلم کی طویل مناجات ”بردرِکعبہ” تحت اللفظ میں پڑھ کر سنائی جبکہ نظم کا کچھ حصہ ع س مسلم نے خود پڑھا جسے حاضرینِ مجلس نے بڑے ذوق و شوق سے سنا۔ ”بردرِکعبہ” کے بعد ع س مسلم کا لکھا ہوا ”سلام بحضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم” مقامی نعت گو ڈاکٹر سید اکرم شہزاد نے پیش کیا۔

تقریب کے آخر میں علّامہ ع س مسلم کو چودھری نور الحسن تنویر ، طاہر منیر طاہر، چودھری الطاف ، شیخ محمد پرویز ، اوریامقبول جان اور عطاء الحق قاسمی نے خوبصورت شیلڈ پیش کی۔ جبکہ علمی و ادبی خدمات کے اعزاز میں چودھری نور الحسن تنویر ، شیخ محمد پرویز اور طاہر منیر طاہر کو بھی شیلڈز سے نوازا گیا۔ پاکستان سے آنے والے مہمانوں عطاء الحق قاسمی، اوریا مقبول جان کو بھی یادگاری شیلڈز پیش کی گئیں۔ اس موقع پر ع س مسلم کے مختصر تعارف پر مبنی ایک خصوصی مجلّہ بھی شائع کیا گیا تھا جو تقریب میں آنے والے تمام لوگوں میں اعزازی طور پر تقسیم کیا گیا۔ مجلّہ میں مناجات ”بردرِکعبہ” اور ”سلام بحضور سرورِ کائنات” کے آغاز میں برکت کے لیے ع س مسلم کے یہ رْوح پرور اشعار بطورِ خاص درج کیے گئے:

اللہ واحد و یکتا اِلٰہ بے عدیل
لاشریک و بے مثال و بے مثیل
اِک امینِ ِ صدقی نے جب کہہ دیا
مانتے ہیں ہم خدا کو بے دلیل
محمدی یا محمدی، مصطفیی، خَیرْالبشری
تیری اعلیٰ شان مَازاغَ الیبَصَر
قْرب میں قوسَین سے نزدیک تر
اَور جلوے ہیں کہ تاحدِّ نظر

دوبئی و دیگر امارات کے ادبی حلقوں نے ع س مسلم کے اعزاز میں منعقدہ اس تقریب کو بے حد سراہا اور آئندہ بھی ایسی ادبی تقریبات کے انعقاد کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ تقریب عطاء الحق قاسمی کی صدارت میں ہوئی جبکہ چودھری نورالحسن تنویر نے آنے والے تمام مہمانوں اور شرکائے تقریب کی عشائیہ سے دعوت کی اور ان کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔تحریر : طاہر منیر طاہر
بیورو چیف، متحدہ عرب امارات
Email:tmtahir@gmail.com