مخالفین مغربی ممالک کی کٹھ پتلیاں ہیں

Bashar al-Assad

Bashar al-Assad

شام کے صدر بشارالاسد نے اپنی حکومت کے مخالفین کو ’خدا کے دشمن اور مغربی ممالک کی کٹھ پتلیاں‘ قرار دیا ہے۔

گذشتہ سال نومبر میں روسی ٹی وی پر دیے جانے والے بیان کے بعد صدر بشارالاسد نے پہلی بار عوامی تقریر کی ہے۔

دارالحکومت دمشق میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے ملک میں جاری کشیدگی کی وجہ سے عوام کی مشکلات پر شدید غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’درد کے سیاہ بادل‘ کونے کونے تک پہنچ گئے ہیں۔

شام میں سنہ دو ہزار گیارہ سے شروع ہونے والی کشیدگی میں اقوام متحدہ کے مطابق ساٹھ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

شامی حکومت کے خلاف جاری بغاوت کو مغربی ممالک کی اکسائی ہوئی کٹھ پتلیاں قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ شام ملازموں سے نہیں بلکہ اصل طاقتوں سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔

انھوں نے کہا شام نے سفارتی اقدامات کو نظر انداز نہیں کیا تاہم ان کا اصرار تھا کہ ان افراد سے مذاکرات نہیں کیے جا سکتے جن کے دہشتگرد خیالات ہیں۔

انھوں نے کہا ’کچھ لوگ شام کو توڑنا چاہتے ہیں اور اسے کمزور کرنا چاہتے ہیں مگر شام اس سے زیادہ مضبوط ہے اور شام خودمختار رہے گا۔۔۔ یہی بات مغربی ممالک کو پسند نہیں‘۔

ان کی تقریر کے دوران ان کے حامیوں نے نعرے بازی کی اور تقریر کے بعد سٹیج پر ان کے گرد جمع ہوگئے۔

صدر بشارالاسد نے کہا کہ ان کی مخالف قوتیں کوئی تحریک نہیں۔

انھوں نے کہا کہ تحریک کے لیے دانشور چاہیے ہوتے ہیں اور تحریکیں خیالات پر مبنی ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تحریکوں کو قیادت کی ضرورت ہوتی ہے اور شامی باغیوں کی کوئی قیادت نہیں۔

صدر نے باغیوں پر عوام سے خوراک چھیننے اور بچوں کو تعلیم سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی اور طبی امداد روکنے کے الزامات عائد کیے۔

’ہماری گلیوں میں سکیورٹی اور استحکام نہیں ہے اور ملک میں خوشی کہیں نہیں‘۔

صدر بشارالاسد نے ہر شہری کو اپنی استعداد کے مطابق ملک کا دفاع کرنے کے لیے کہا۔

شام کے حالات کو ’حالتِ جنگ‘ قرار دینے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک کو بچانے کی جنگ ہے۔

بی بی سی کے جیمز رینلڈز کا کہنا ہے کہ صدر بشارالاسد کی اس دعوت کے بعد باغیوں میں سے کسی کا اس بات پر قائل ہونے کا امکان نہیں کہ صدر اقتدار میں تبدیلی کے لیے تیار ہیں۔

شام میں باغی گذشتہ اکیس مہینوں سے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپی یونین نے شامی باغیوں کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے جبکہ چین اور روس صدر بشارالاسد کی حکومت کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔

شام اور اقوام متحدہ کے مشترکہ ایلچی اخضر براہیمی نے خبردار کیا ہے کہ اگر شام کے مسئلے کا بات چیت کے ذریعے پرامن حل نہ نکالا گیا تو شام میں شدید تباہی ہو گی۔