وہ حرفِ راز کو مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں

Allama Mohammad Iqbal

Allama Mohammad Iqbal

وہ حرفِ راز کو مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفسِ جبرائیل دے تو کہوں

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخئی افلاک میں ہے خوار و زبوں

حیات کیا ہے؟ خیال و نظر کی مجذوبی
خود کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناں گوں

عجب مزا ہے مجھے لذتِ خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں

ضمیرِ پاک و نگاہِ بلند و مستئی شوق
نہ مال و دولتِ قاروں، نہ فکرِ افلاطوں

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ ۖ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکوں

علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن
اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں

علامہ محمد اقبال