افغان طالبان کی نیٹو کو طے شدہ فوجی انخلا میں تاخیر کے خلاف تنبیہ

Soldiers

Soldiers

کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغان طالبان نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ہندو کش کی اس ریاست سے طے شدہ فوجی انخلا میں ممکنہ تاخیر کے خلاف تنبیہ کی ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ ایسی کوئی بھی تاخیر نیٹو کی طرف سے ’جنگ کے تسلسل‘ کی خواہش سمجھی جائے گی۔

کابل سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق نیٹو کی طرف سے اس کے افغانستان سے مجوزہ فوجی انخلا کے بارے میں اس وقت قدرے بے یقینی کے ساتھ جو غور کیا جا رہا ہے، اس کے پیش نظر طالبان عسکریت پسندوں کی قیادت نے کہا ہے کہ اس انخلا میں کسی بھی تاخیر کا مطلب یہ ہو گا کہ نیٹو اتحاد ‘جنگ جاری رکھنے‘ کا ارادہ رکھتا ہے۔

قطری دارالحکومت دوحہ میں کابل حکومت اور افغان طالبان کے مذاکراتی نمائندوں کے مابین امن بات چیت جاری تو ہے مگر اس کا ابھی تک کوئی واضح اور قابل عمل نتیجہ نہیں نکلا۔

ان حالات میں مذاکرات جاری رکھنے کے باوجود طالبان افغانستان کے مختلف صوبوں میں اپنے مسلح حملے بھی نا صرف جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران ان میں کافی تیزی بھی آ چکی ہے۔

اس تناظر میں نیٹو میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے وزرائے دفاع کی سطح کا ایک اجلاس اگلے ہفتے ہو رہا ہے، جس میں یہ طے کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ افغانستان میں اس عسکری اتحاد کے تقریباﹰ 10 ہزار فوجیوں کو طالبان کے حملوں میں اضافے کے پیش نظر واپس بلا لیا جانا چاہیے یا ابھی وہ وہیں تعینات رہیں۔

نیٹو کے یہ مسلح دستے زیادہ تر افغان سکیورٹی فورسز کے لیے امدادی فرائض انجام دیتے ہیں۔

عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔

نیٹو کو درپیش اس تذبذب پر اپنے رد عمل میں آج ہفتے کے روز افغان طالبان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ”ہمارا نیٹو کے آئندہ وزارتی اجلاس کے حوالے سے اس اتحاد کو مشورہ یہی ہو گا کہ افغانستان پر قبضے اور جنگ کو جاری رکھنا نا تو نیٹو کے اپنے مفاد میں ہو گا اور نا ہی افغان عوام کے مفاد میں۔‘‘

طالبان کے اس بیان کے مطابق، ”جو کوئی بھی جنگوں اور قبضے میں توسیع کی کوشش کرے گا، اسے اسی طرح جواب دہ بنایا جائے گا، جیسے گزشتہ دو عشروں کے دوران دیکھا گیا ہے۔‘‘

دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثر ممالک میں افغانستان اس برس سر فہرست رہا۔ سن 2018 کے دوران افغانستان میں 1443 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے کیے گئے حملوں کے سبب ہوئیں۔ طالبان نے پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا۔ داعش خراسان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.60 رہا۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں گزشتہ برس امریکا اور افغان طالبان کے مابین ایک معاہدہ طے پا گیا تھا، جس کے تحت واشنگٹن حکومت نے اتفاق کیا تھا کہ افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجی مئی 2021ء تک واپس بلا لیے جائیں گے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان سے غیر ملکی فوجی انخلا کا یہ وعدہ اس شرط پر کیا تھا کہ اس کے بدلے میں افغان طالبان دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے ساتھ اپنے جملہ رابطے ختم کر دیں گےا ور ساتھ ہی وہ کابل حکومت کے ساتھ کسی حتمی امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے بات چیت بھی شروع کریں گے۔