عمر بھر کے لیے لاک ڈاؤن: معذور افراد پر کیا بیت رہی ہے؟

Disabled People

Disabled People

جرمنی جرمنی میں صحت کے ہاتھوں مجبور افراد کو صحت مند افراد کے مقابلے میں کووڈ انیس کے خطرات کا کہیں زیادہ سامنا ہے۔ انہیں کورونا کے دور میں اپنے سیاسی اور سماجی سطح پر تنہا چھوڑ دیے جانے کا احساس مزید بیمار کررہا ہے۔

جرمنی کے بہت سے جوان مگر کسی نا کسی دائمی مرض میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال یا تو ان کے اہل خانہ یا پھر صحت کے شعبے سے وابستہ تجربہ کار پیشہ ور معاون کرتے ہیں۔ جسمانی یا کسی ذہنی معذوری کے شکار ان افراد کو کورونا وائرس کے حملے کے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں اور ان میں کووڈ انیس کی بیماری کی تشخیص بھی زیادہ مشکل سے ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ایسے مریضوں کا کہنا ہے کہ نا تو انہیں کوئی حفاظتی ساز و سامان مہیا کیا گیا ہے اور نا ہی ان کے لیے ‘ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ‘ کا کوئی بندوبست ہے۔

28 سالہ کونسٹانٹن گرچہ خوش مزاج اور پُر امید ہے مگر وہ پٹھوں کی کمزوری کے ایک عارضے میں مبتلا ہے۔ وہ عام طور پر اپنی کسی بھی محرومی کا کوئی تاثر نہیں دیتا اور نا ہی اس کے چہرے سے کبھی اس کے احساسات نمایاں ہوتے ہیں۔ تاہم کورونا کی وبا کے دور میں اکثر وہ اضطرابی کیفیت میں نظر آتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی اور معاشرتی سطح پر اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے، ”مجھے اور میرے جیسے معذوروں کو سیاستدان اور معاشرہ دونوں بھول چکے ہیں۔‘‘ جرمن ریاست لوئر سیکسنی کے شہر ہامل سے تعلق رکھنے والا کونسٹانٹن معاشرتی علوم کا طالب علم ہے اور معذور افراد کی عوامی سماجی زندگی میں شرکت کے لیے بطور کارکن سرگرم ہے۔

خاص قسم کی اعصابی بیماری انسانوں کو چلنے پھرنے سے معذور کر دیتی ہے۔

کونسٹانٹن اور اس جیسے معذوروں کا شمار ویکسینیشن کے لیے تیار کی گئی ترجیحاتی فہرست کی پہلی تو کجا دوسری لسٹ میں بھی نہیں ہوتا۔ جرمنی میں کچھ عرصے سے اس امر پر کافی بحث اور اعتراضات سامنے آئے ہیں کہ ترجیحی ویکسینیشن میں کن لوگوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں قانون سازوں نے اب کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ موجودہ ویکسینیشن آرڈیننس کے تحت ویکسین لگوانے والے افراد کی فہرست نمبر دو میں اعصابی یا پٹھوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے نام شامل کیے گئے ہیں اور انہیں بھی ترجیحی بنیادوں پر ویکسین لگائی جائے گی۔ تاہم ان کی باری کب آتی ہے یہ ابھی تک واضح نہیں۔ کونسٹانٹن اور اعصابی بیماریوں میں مبتلا ایسے مریضوں کو اپنے ذاتی معالج سے اپنی بیماری کا سرٹیفیکیٹ لینا ہو گا، جسے ویکسین لگوانے کی باری آنے پر ثبوت کے طور پر پیش کیا جائے گا، تو ہی انہیں ویکسین دی جائے گی۔

کونسٹانٹن اور اس جیسے دیگر طالب علم خود اپنے کورونا ریپڈ ٹیسٹ کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ ٹیسٹ کِٹ آن لائن آرڈر پر منگوائی جا سکتی ہے تاہم ان مریضوں کو یہ خود ہی خریدنا ہو گی۔ کونسٹانٹن چاہتا ہے کہ صحت اور طبی نگہداشت کی انشورنس کمپنیاں اس ٹیسٹ کے اخراجات اٹھائیں مگر یہ کمپنیاں اس امکان کو سرے سے رد کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمومی صحت کی دیکھ بھال اور حفاظتی آلات کے اخراجات اٹھانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔

کورونا وبا سے پہلے کچھ معذور افراد ’کیئر ٹیکرز‘ کی مدد سے اپنے گھروں سے باہر نکلا کرتے تھے۔

کورونا کی وبا کے دوران معذوروں کی طرف تاخیر سے توجہ مبذول ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ معذوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کونسٹانٹن کا کہنا ہے، ”معذوروں سے متعلق موضوعات سیاستدانوں کے لیے کسی کشش کا باعث نہیں۔‘‘ اگر کبھی اس سلسلے میں کوئی موضوع زیر بحث آتا بھی ہے، تو اس کا تعلق معذوروں کو طبی سہولیات فراہم کرنے والے بڑے بڑے اداروں سے ہوتا ہے۔

28 سالہ کونسٹانٹن کا کہنا ہے کہ وہ جس معاشرے کا حصہ ہے، اس میں مجموعی طور پر معذوروں کے مسائل اور ان کے جذبات کے بارے میں بے حسی پائی جاتی ہے۔ وہ بڑے طنزیہ انداز میں قہقہے لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ جب لوگ لاک ڈاؤن سے تنگ آ کر شور کرنے لگتے ہیں اور انہیں پابندیاں کَھلنے لگتی ہیں، تو میں ان سے کہنا چاہتا ہوں، ”لوگو! جاگو، آنکھیں کھولو۔ اگر تین ماہ تک تمہیں فٹنس اسٹوڈیو جانے کا موقع نا ملے تو تم تنگ آ جاتے ہو۔ میرے لیے تو ساری زندگی ایسی ہی رہی۔ صرف میری ہی نہیں بلکہ میرے جیسے بہت سے دیگر معذوروں کی زندگی بھی۔‘‘کورونا لاک ڈاؤن: جرمن اپنے مالیاتی مستقبل سے پریشان

معذوروں کے فیزیو تھراپی سینٹرز بھی کورونا وبا کے سبب بند پڑے ہیں۔

کونسٹانٹن کو ڈر ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو تھوڑا بہت سماجی رابطہ معذور افراد کا ہوتا ہے، وہ اسے بھی کھو دیں گے اور اس سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا کی وبا کے خاتمے کے بعد سماجی رابطوں کی بحالی کے لیے معذور افراد کی کس طرح مدد کی جائے گی اور انہیں کیسے دوبارہ معاشرتی زندگی کا حصہ بنایا جائے گا؟ کونسٹانٹن چاہتا ہے کہ اس بارے میں سیاسی سطح پر سوچ بچار کی جائے، یا کم از کم سیاستداں اور پالیسی ساز اس مسئلے کا اداراک تو کریں۔ وہ کہتا ہے، ”مجھے تو فی الحال ایسے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔‘‘