آئیے امریکہ سے ملتے ہیں!

America

America

بلا شبہ اس وقت امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ غالباً بھٹو نے یہ کہا تھا کہ روس کے ہاتھ مضبوط کرو ورنہ دنیا میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ آج یہ سپر پاور اپنی من مانیوں کی وجہ سے قدر کھو رہا ہے ،اپنا اعتبار کھو رہا ہے اس کا اُٹھایا ہوا ہر اقدام دنیا کی نظر میں ایک ڈرامے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ حکومتوں کو زیر و زبر کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ امریکہ نے نہ صرف پوری دنیا کو ”وخت ” ڈالا ہوا ہے بلکہ امریکیوں کو بھی اپنی پالیسیوں کی وجہ سے غیر محفوظ کر دیا ہے 9/11 اسکی ایک بہت بڑی مثال ہے۔

امریکہ خود امریکیوں کی نظر میں کیا ہے ۔جیمزپیٹرسن اورپیٹرکم کی کتاب سے اختصار کے ساتھ اقتباسات پیش کرتی ہوں۔کتاب کا نام ہے امریکہ گناہوں کی دلدل میں ” مصنفین نے اسے امریکی معاشرے کے اخلاقی زوال کی عبرت انگیز مثال قرار دیا ہے ۔کہ جن کا تعارف ہی اخلاقی زوال سے شروع ہوتا ہے۔

ان کے مطابق امریکی مرد عورتوں سے زیادہ اخلاقی زوال کا شکار ہیں۔۔امریکہ میں اخلاقی قیادت کا فقدان۔۔نہ ہی یہ کسی مذہبی یا دنیاوی قانون کی پرواہ کرتے ہیں۔۔امریکی نوجوان نسل جرائم پیشہ اور تشدد پسند۔۔جھوٹ امریکی کلچر کا جزولائیفک۔۔ کمیونٹی کا وجود مٹ چکا ہے۔۔کمسنی میں جنسی استحصال۔۔دوشیزگی کا بحران۔۔زنا کے بڑھتے ہوئے واقعات۔۔ہم جنس پرستی۔۔شادی کی روایت بے وقعت ہو چکی ہے۔۔والدین کی بے حرمتی۔۔سزائے موت امریکیوں کا خبط ہے۔۔امریکی فاتح نہیں ہیں۔

خوفزدہ امریکی والدین اعتراف کرتے ہیں کہ امریکہ میں بچپن فنا ہو چکا ہے۔ وقت سے پہلے جنسی عمل بچپن کے خاتمے کا واحد اور سب سے زیادہ اثر ڈالنے والا ناخوشگوار المناک پہلو ہے۔ ایک زمانہ تھا جب بچے سکول سے گھروں کو لوٹ کر والدہ کی طرف لپکتے تھے دودھ پیتے اور بسکٹ کھاتے تھے پھر باہر جا کر انہماک سے گیند اچھالتے، سائیکلیں چلاتے اسکیٹنگ کرتے اور باب سکاچ کھیلنے جیسے مشاغل میں مگن ہو جاتے تھے ۔یہ کھیل غیر منظم ہوتے تھے لیکن ان کے بارے میں نفسیات دانوں کو یقین ہے کہ یہ ذہانت اور تخلیقیت پیدا کرتے ہیں ۔۔۔ماضی پر نظر ڈالیں تو بیسویں صدی کا درمیانہ عشرہ ایک سنہری زمانہ دکھائی دیتا ہے۔

1960اور 1970کی دہائیوں میں رونما ہونے والے جنسی انقلاب نے 1990 میںامریکی مردوں اور عورتوں کو الگ الگ دنیائوں میں پہنچا دیا ہے۔وہ ایک دوسرے کو اجنبیت اور معاندت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ امریکہ میں کمیونٹی لائف ختم ہونے کی وجہ سے جرائم،غربت ،نسلی امتیاز اور منشیات میں اضافہ ہوا ہے ۔امریکہ میں شراب سب سے زیادہ مقبول نشہ ہے۔بتایا گیا ہے کہ تین کروڑ امریکی شراب کے عادی ہیں۔ایک کروڑ نوے لاکھ امریکیوں نے تسلیم کیا کہ وہ شراب کے عادی رہے ہیں جبکہ ایک کروڑ دس لاکھ آج بھی اس کے عادی ہیں۔شراب کے عادی لوگ دوسروں کے لیئے بھی مسائل کھڑے کرتے ہیں۔

ہر سال تقریباً چار لاکھ پچاس ہزار شرابی نوجوان ڈرئیوروں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔تیئیس فیصد امریکی میری جوانا کے عادی ہیں چھ فیصد کوکین کے ایک فیصد ایل ایس ڈی ایک فیصد سے کم حشیش ،ہیروئن اور ایکسٹیسی کے عادی ہیں پچاس فیصد امریکی کہتے ہیں کہ منشیات کا مسلہ بہت زیادہ سنگین ہو چکا ہے اور دس میں سے سات جرائم منشیات کی وجہ سے ہوتے ہیں 41ْ فیصد لوگوں نے تسلیم کیا کہ وہ تفریحاً میری جوانا اور کوکین کا نشہ استعمال کرتے ہیں۔53 فیصدلبرل لوگ جبکہ 30فیصد قدامت پسند منشیات استعمال کرتے ہیں۔امریکہ میں منشیات کے عادی افراد کی قومی شرح 41 فیصد ہے۔

لوگ عام زندگی کے اہم معاملات میں مذہب سے رہنمائی نہیں لیتے بلکہ مذہب سے متعلقہ معاملات میں بھی چنداں تکلف نہیں کرتے بیشتر لوگوں کو تو اہم معاملات پر اپنے چرچ کے موقف کا بھی علم نہیں شائد یہ مذہب سے امریکیوں کی بے اعتنائی کی حقیقی کسوٹی ہے۔

صرف ستائیس فیصد لوگ باقائدگی سے چرچ جاتے ہیں ۔روزمرہ زندگی کے مختلف معاملات میں امریکی لوگ مذہب سے بالکل رہنمائی نہیں لیتے۔وہ کہتے ہیں ہم اپنے آپ کو اخلاقیات کی کسوٹی بنا چکے ہیں ۔ہم اپنی پسند نا پسند کے مطابق ”احکامات ” کو اپناتے ہیں۔ ہر سات میں سے چھ امریکی سوچتے ہیں خدا کو نہ ماننا غلط نہیں ہے۔

بیشتر امریکی خدا سے ڈرتے ہیں نہ محبت کرتے ہیں۔امریکیوں کا اپنی حکومت پر اعتبار کا یہ عالم ہے کہ ایک یونیورسٹی کے صدر نے ایک واقعہ سنایا جس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی اپنے لیڈروں کا کتنا اعتبار کرتے ہیں۔اس نے بتایا کہ 1987کے موسم خزاں میں وہ بالغوں کی ایک سنڈے کلاس کو پڑھا رہا تھا کلاس میں بینکار ،بزنس ایگزیکٹو،اور یونیورسٹی پروفیسر شامل تھے۔اس نے اس زمانے کے ایک حالیہ واقعے کے حوالے سے پوچھا کہ ایران کا ایک جہاز خلیج فارس میں ڈوب گیا ہے ‘ ایرانی حکومت کہتی ہے وہ امریکی تار پیڈو لگنے سے ڈوبا ہے جبکہ امریکی حکومت کہتی ہے کہ جہاز ایرانی بارودی سرنگوں سے ٹکرا گیا تھا ‘ آپ بتائیے آپ ان میں سے کس کے موقف کو درست سمجھتے ہیں ؟ وہ کہتا ہے کہ اس کے جواب میں کوئی ایک بھی نہیں بولا سب چپ رہے ،وہ جواب دینے سے پہلے معلومات حاصل کرنا ضروری خیال کرتے تھے۔

American People

American People

اس کلاس میں کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جو اپنی حکومت کو سچا مانتا اس کی بجائے انہیں ایرانی حکومت پر اعتبار تھا۔امریکیوں کی ایک غیر معمولی صفت ہے کہ وہ اپنے ملک سے محبت بھی کرتے ہیں اور اس میں خامیاں بھی ڈھونڈتے ہیں۔امریکیوں کا ایقان ہے کہ ہمارا ملک سرد مہر، حریص اور پست ہو چکا ہے تاہم اس کے تمام تر نقائص کے باوجود ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔بلاشبہ امریکی محب الوطن ہیں …. قریباً سب کے سب۔ امریکہ کے تمام بڑے اداروں کے حوالے سے امریکیوں کا اعتماد تقریباً ختم ہو چکا ہے تاہم ملک کے ساتھ ان کی محبت حقیقتاً غیرمتزلزل ہے( یہ ہمارے لیئے سوچنے کا مقام ہے کہ ہم میں اپنے ملک سے محبت کاجذبہ کیوں کمزور پڑتا جا رہا ہے ؟ ) تقریباً تمام (91 فیصد امریکی محب الوطن ہیں اور ایک کے مقابلے میں تین امریکیوں کا ایقان ہے کہ ہمارا ملک ابھی اور محب وطن کا مستحق ہے۔اپنی تمام تر نکتہ چینی کے باوجود ہر امریکی اپنے ملک امریکہ کے حوالے سے گہری پسنددیدگی کا حامل ہے۔

91 فیصد امریکیوں کا ایقان ہے کہ امریکہ نے دنیا میں ایک خصوصی کردار ادا کرنا ہے 79فیصد جمہوریت کے حوالے سے اپنے ملک کو ”نمبرون ” تصور کرتے ہیں جبکہ 68 فیصد میعار زیست کے حوالے سے ، 65فیصد عالمی قیادت،65 فیصداخلاقی قیادت ،اور 63 فیصد عسکری قوت کے حوالے سے دنیا کا اول درجے والا ملک تصور کرتے ہیں۔ نوجوان امریکی ووٹ بھی کم دیتے ہیں اٹھارہ سے چوبیس سال کی عمر کے نوجوان جن کے ووٹ بھی درج ہیں ان میں سے پچاس فیصد ووٹ نہیں دیتے ۔دور حاضر کے امریکیوں کو خبروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے حتٰی کہ ٹی وی کی خبروں سے بھی نہیں ۔اخبار پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے البتہ نوجوان امریکیوں میں ٹی وی دیکھنے کا رحجان بڑھ گیا ہے ان کے لیئے اطلاع،کلچر،اخلاق کا سرچشمہ صرف ٹی وی ہے ایک لڑکی نے کہا اگر ٹی وی بند ہو تو وہ سکول کا کام بھی نہیں کر سکتی ۔سیاستدانوں کے بارے میں امریکیوں کے خیالات بھی ہم سے الگ نہیں ہیں ۔ وہ بھی انہیں جھوٹا سمجھتے ہیں ان کے نزدیک حکومت جھوٹوں اور دھوکہ دینے والوں پر مشتمل ہے ۔امریکی پیشوں کے معاملے میں بھی خدماتی پیشوں کا نام نہیں لیتے ۔چند لڑکیوں سے جب ان کے اہداف کے بارے میں پوچھا گیا تو دو نے ڈاکٹر دو اداکارائیں ، دو رقاصائیں، ایک ادیبہ اور ایک ماہر ماحولیات بننا چاہتی تھی۔

جب نوعمر امریکی لڑکے لڑکیوں سے پوچھا گیا ”امریکہ کا مستقبل کیا ہے ” تو انہوں نے کہا ” امریکہ زوال کا شکار ہے ” جاپان کے ایک معاشی قوت کے طور پر ظہور اور امریکہ پر اس کی برتری کے حوالے سے امریکی شدید مشتعل ہیں تین چوتھائی امریکیوں کا خیال ہے کہ عالمی منڈی میں جاپان کی کامیابی امریکہ کے لیئے سنگین خطرہ ہے یہی وجہ ہے کہ بیشتر امریکی جاپان کو تجارتی راز فروخت کرنے والے کسی بھی امریکی کو سزائے موت دینے کے حامی ہیں۔

امریکیوں کے نزدیک ان کے 12 بڑے مسائل ہیں (١)امریکہ میں قیادت کا فقدان ہے (٢)امریکہ میں لالچ میں اضافہ ہو رہا ہے (٣)امریکہ کے تعلیمی نظام کی حالت ایک قومی بحران بن چکی ہے (٤)ماحول خطرناک حد تک آلودہ ہو چکا ہے (٥)امریکی نوجوانوں میں تشدد کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے(٦)امریکہ میں کمیونٹی ختم ہو چکی ہے ۔امریکی بیگانگی کا شکار ہیں (٧)امریکہ میں بچوں سے بدسلوکی میں اضافہ ہو چکا ہے (٨)امریکی کاروباروں کی کارکردگی پست ہو چکی ہے (٩)امریکہ میں منشیات کا مسلہء سنگین ہو چکا ہے (١٠)امریکہ میں خواتین سے dete rape کا رحجان بڑھ گیا ہے (١١)امریکیوں میں اسلحہ رکھنے کا رحجان بہت زیادہ ہو گیا ہے (١٢)معاشی حوالے سے جاپان امریکہ پر حاوی ہو گیا ہے۔

امریکی عورتیں زندگی کے ہر شعبے میں مردوں سے برتر ہیں وہ جھوٹ بھی کم بولتی ہیں اور ان میں مردوں کی نسبت احساس زمہ داری بھی زیادہ ہے ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے عورتوں کو دونوں سیاسی جماعتوں ، مذہب ،تعلیم،اور کاروبار میں قیادت سنبھالنی چاہیئے،امریکی پریس کو ٹی وی کے تخیلاتی کرداروں سے بھی کم درجہ دیتے ہیں ۔امریکہ میں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے امریکہ کی کل آبادی کا ساٹھ فیصد کسی نہ کسی بڑے جرم کا نشانہ بن چکا ہے امریکیوں کو تعلیم اور ماحول کے حوالے سے اخلاقی Crusadeکی ضرورت ہے ۔ہر پانچ میں سے ایک امریکی ہم جنس پرست ہے۔امریکی شادی کے قائل نہیں رہے ایک تہائی شادی شدہ مردوں اور عورتوں نے اعتراف کیا کہ ان کا کم از کم ایک معاشقہ چل رہا ہے ۔اسی فیصد امریکیوں کی رائے ہے کہ سکولوں میں اخلاقی تعلیم دی جانی چاہیئے ۔گو امریکہ میں شدید قسم کی نسل پرستی ختم ہو چکی ہے مگر ایک نئی قسم کی نسل پرستی نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ قارئین ! ہمارے ہاں امریکہ کو نعوذباللہ خدا مانا جاتا ہے ،ہم انکی تقلید کرنا قابل فخر سمجھتے ہیں ہم انکی طرح اپنے اسکولوں میں جنسی تعلیم دینے کو بھی تیار ہو گئے ہیں اور اس کا تجربہ بھی کیا جا رہا ہے ،لیکن خود امریکی اپنے اسکولوں میں اخلاقی تعلیم کی خواہش رکھتے ہیں ،جبکہ ہمارا دین ہمیں ایک مکمل اخلاقی تعلیم دیتا ہے جو ہم نے اپنے زمانے میں پڑھا ہماری دینیات ،ہماری اسلامیات جن سے کبھی امریکہ اور کبھی بھارت کی خواہش پر بہت سی بنیادی دینی تعلیمات کو حذف کیا جا رہا ہے بلکہ کر دیا گیا ہے۔

کیا ہم ایک ایسے ملک کی تقلید کرنے جا رہے ہیں جس کو خود اصلاحات کی ضرورت ہے ؟ حال ہی میںامریکی خاتون صحافی کارلوٹاگال نے ایک جھوٹا بیان دے کر دنیا کو ایک نیا موضوع بحث دے دیا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ کہ امریکہ اپنے سپر پاور ہونے کا فائدہ اٹھا رہا ہے خاتون صحافی کوئی مستند ذریعہ بتانے سے بھی قاصر ہیں۔چونکہ ہم لوگ ان کے لکھے یا ان کے کہے کو حرف آخر سمجھتے ہیں اس لیئے الیکٹرانک میڈیا اور اخباروں کو جہاں ایک نیا موضوع مل جاتا ہے وہاں عام پاکستانی بھی اس قسم کے بے بنیاد پروپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا سچ تو یہ ہے کہ جب بھی خصوصاً پاکستان میں امن اور استحکام کی کوششیوں کی شروعات ہوں امریکی انہیں اسی طرح سبوتاژ کر دیتے ہیں۔صحافیوں اور میڈیا کے لیئے بھی کچھ اخلاقی حدود کا تعین ضروری ہے کیونکہ آج خبر پرلگا کر اڑتی ہے۔امریکی خود بھی اس روش سے پریشان ہیں شائد اس لیئے انہوں نے دوسرے ممالک کو اپنا ٹھکانہ اور نشانہ بنایا ہوا ہے تا کہ اپنی اخلاقی گراوٹ پر سے دنیا کی توجہ ہٹا سکیں صرف ایک اسامہ کے نام پر کتنے جھوٹ بولے گئے یہ اب ساری دنیا پر عیاں ہو چکا ہے ۔پاک آرمی اپنے کاز اور اپنی زمہ داریوں سے لاتعلق نہیں۔ہمیں ان پر اعتبار کرنا چاہیئے۔آئی ایس پی آر نے اس مضمون کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔افواہیں اور سازشیں قوموں کو برباد کر دیتی ہیں اور اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کا باعث بنتی ہیں۔اس کی آڑ میں وہ کام کیئے جاتے ہیں جن سے عوام الناس کو بے خبر رکھا جاتا ہے ،یہ سیاست اور صحافت دونوں کی مجبوری ہوتی ہے سیاستدان تو ہر جگہ ہی جھوٹے ہیںان جھوٹوں سے اصلاح کی توقع بیکار ہے لیکن اپنے اداروں پہ بے اعتباری قوم کا شیرازہ بکھیر دے گی ہم سب کو اپنے اصل کی طرف لوٹنا ہو گا اسی میں ہماری نجات ہے۔

Mrs. Jamshed Khakwani

Mrs. Jamshed Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی