عرب اسرائیل تعلقات پر بائیڈن بھی ٹرمپ کی پالیسی پر گامزن

Joe Biden

Joe Biden

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی ڈیموکریٹ پارٹی کے دیگر اراکین سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مبینہ ‘ابراہیمی معاہدے‘ کو اپنی پالیسی کے حصے کے طورپر آگے بڑھا رہے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی ڈیموکریٹ پارٹی کے دیگر اراکین سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مبینہ ‘ابراہیمی معاہدے‘ کو اپنی پالیسی کے حصے کے طورپر آگے بڑھا رہے ہیں۔

صدرجوبائیڈن عرب ریاستوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے نہ صرف ترغیب دے رہے ہیں بلکہ اسرائیل کے ساتھ ان کے موجودہ معاہدوں کو مستحکم کرنے پربھی زور دے رہے ہیں، جوغزہ پٹی میں گزشتہ ماہ کی تباہ کن جنگ کے بعد متاثر ہوگئے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں سن 1948 سے ہی یہودی ریاست کی خطے میں چلی آ رہی دشمنی اور تنہائی کو کم کرنے کے خاطر ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ برس اسرائیل اور چار عرب ریاستوں کے درمیان معاہدہ کرانے کے لیے امریکی دباؤ اور مراعات کا استعمال کیا تھا۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق بائیڈن انتظامیہ بھی اب اسی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے دیگر عرب حکومتوں کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور معاہدوں پر دستخط کے نئے امکانات دیکھ رہی ہے۔ امریکی عہدیداروں نے تاہم ان مسلم اورعرب ممالک کے نام بتانے سے انکار کیا جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر رضامند ہو گئے ہیں۔

یہ مظہر اس لیے وقوع پذیر ہوا، کیوں کہ چاند کی مداروی گردش کے تین مظاہر ایک ساتھ رونما ہوئے، یعنی ایک ہی دن، زمین سے انتہائی قربت کی وجہ سے غیرعمومی طور پر بہت بڑا چاند دکھائی دیا، وہ نیلا بھی اور چاند گرہن کے ساتھ۔

خبررساں ایجنسی اے پی کے مطابق سوڈان ان متوقع ممالک میں سے ایک ہے، جس نے اسرائیل کے ساتھ پرامن تعلقات کے عمومی اعلامیہ پر تودستخط کیے ہیں لیکن سفارتی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں کیا ہے۔ عمان بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا ایک ممکنہ عرب ملک ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک اسے عدم مداخلت کی اس کی پالیسی کی وجہ سے مشرق وسطی کے مسائل پر ثالثی کے لیے پرکشش ملک کے طور پر دیکھتے رہے ہیں۔

لیکن گزشتہ ماہ اسرائیل اور حماس درمیان گیارہ روز تک جاری رہنے والی جنگ اور خونریزی نے ایسے نئے معاہدوں کے لیے سفارت کاری کی امریکی کوششوں کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

گزشتہ ماہ غزہ پٹی میں اسرائیلی حملوں میں 66 بچوں سمیت 245 فلسطینی مارے گئے تھے ان میں سے کم از کم 22 ایک ہی خاندان کے افراد تھے۔ ان ہلاکتوں اور تباہ کاریوں پر عرب ممالک کے عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ ان میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش شامل تھے جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔

سوڈان میں سرگرم کارکن ڈورا گیمبو کا کہنا تھا کہ غزہ کی جنگ نے ملک میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی مخالفت کرنے والے گروپوں کے موقف کو تقویت فراہم کی ہے۔ گزشتہ برس اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے کی وجہ سے سوڈانی عوام پہلے ہی اپنی حکومت کے موقف پر تقسیم ہوچکے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں سوڈان پر سے امریکی پابندیوں کو ختم کرنے کی پیش کش کی تھی۔

بائیڈن انتظامیہ اسرائیل میں سابق امریکی سفیر ڈین شاپیر کو اسرائیل اور عرب ملکوں کے مابین معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے ذمہ داریاں سونپنے پر غور کررہی ہے۔ جو اسرائیل اور مشرق وسطی کی دیگر حکومتوں کے ساتھ ایک ایک کرکے تعلقات قائم کریں گے۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق اس پیش رفت سے آگاہ دو افراد نے تصدیق کی ہے کہ شاپیرو کو اس مقصد کے لیے نامزد کیے جانے پر غور کیا جارہا ہے۔ انہوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کی گزارش کی کیونکہ انہیں عوامی طورپر اس معاملے پر کوئی بات کہنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی حکام چار عرب ممالک اور اسرائیل کے مابین کاروبار، تعلیم اور دیگر تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے بھی کام کررہے ہیں۔

امریکا کو امید ہے کہ اس کی اس پالیسی کی کامیابی کے نتیجے میں خطے میں دو طرفہ معاہدوں کو بھی فروغ ملے گا۔امریکی حکام کا کہناہے کہ اس دوران امریکا اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے حل کے لیے بھی کام کرتا رہے گا۔

گزشتہ برس متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرلیے۔ وہ مصر اور اردن کے بعد دو دہائیوں کے دوران اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا پہلا ملک بن گیا تھا۔اس کے اس اقدام پر فلسطینیوں نے مایوسی کا اظہار کیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے اس ہفتے کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو معاہدے کیے تھے وہ ایک ایسی اہم کامیابی تھی جس کی نہ صرف ہم حمایت کرتے ہیں بلکہ اسے آگے بھی بڑھانا چاہتے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا ”ہم ان ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں جو شاید اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں اور میری اس سلسلے میں کئی ملکوں کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت بھی ہوئی ہے۔”