جرائم کی نرسریاں

Police

Police

پاکستان میں اگر سرکاری محکموں کا حال کسی نے جاننا ہے تو صرف محکمہ پولیس کی کارکردگی کو دیکھ لیا جائے اور پورے محکمہ کو بھی چھوڑیں صرف پولیس کے ایک جوان کی کارگذاریاں ہی دیکھ لی جائیں تو آپ کو پورے محکمہ کا اندازہ ہوجائے گا اور اس سے پھر آپ باقی کے اداروں کا بھی زائچہ بنا کر انکی کاروائیاں ملاحظہ کرسکتے ہیں اور ویسے بھی تو ہم اکثر مثالوں میں سنتے ہیں کہ پوری دیگ میں سے چند چاول کھا کر پوری دیگ کے ذائقے کا پتہ چل جاتا ہے جس نظام میں بطور پاکستانی ہم رہ رہے ہیں اور جو انسان ایک بار گھر سے کسی کام کے سلسلہ میں نکل چکا ہو وہ ان سب قباحتوں سے لازمی بات ہے کہ واقف ہی ہوگا گائوں کے ایک کمی سے لیکر اعلی سے اعلی عہدے پر کام کرنے والا بھی اب بخوبی یہ جانتا اور سمجھتا ہے کہ جو نظام پاکستان میں اس وقت رائج ہے اس سے کیسے کام لیا جاسکتا ہے ہمارے دیہاتی بھائی اس بات کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب وہ گھر سے تھانہ، کچہری یا پھر کسی بھی سرکاری دفتر کے لیے نکلتے ہیں تو وہ اپنے خرچ کے علاوہ ان سرکاری ملازمین کے لیے الگ سے پیسے لے کر چلتے ہیں جسکے زریعے انہوں نے اپنا کام کروانا ہوتا ہے خواہ وہ جائز ہو یا ناجائزکیونکہ ہماے زیادہ کام محکمہ پولیس سے متعلق ہوتے ہیں۔

اورمیں اپنے پڑھنے والوں کو اسی دیگ کے چند چاول بطور ذائقہ چیک کروادیتا ہوں باقی محکمے کا اندازہ پڑھنے والے خود لگالیں کہانی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے شروع کرتے ہیں وہاں کی پولیس کے نکے تھانیدار ملک ریاض نے پیسوں کے لالچ میں اپنے ہی داماد پر جھوٹے مقدمے بنوا دیے اپنے پیٹی بند بھائیوں کے ساتھ ملکر مارگلہ کی پہاڑیوں میں خوب مار پیٹ کرنے کے بعداپنے داماد پر تھانہ گولڑہ میں آوارہ گردی کی آیف آئی آر درج کروادی پھر 16 فروری 2011 کو اسی تھانیدار نے صادق آباد کے علاقہ میں اپنی فرضی رہائش گاہ ثابت کرکے اپنی بیٹی کے فرضی اغواء کا ڈرامہ رچا کر اپنے ایک رشتہ دار کو پھانسنے کا پروگرام بنا لیا تاکہ اسے بلیک میل کر کے پیسے کھائیں جا سکیں۔

جب بات نہ بنی تو پھر اپنے اسی رشتہ دار پر جو پاکستان آرمی کا سابق میجر بھی تھا پر بیٹری چوری کا مقدمہ درج کروادیا اور اسی تھانیدار کی وجہ سے رسم سویرا میں دی گئی خواتین اب بھی قید میں بند زندگی کو ترس رہی ہیں اور موصوف جس تھانہ میں بھی رہے وہاں سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنا انکے بائیں ہاتھ کا کھیل رہا اسکے بعد اب صوبائی دارالحکومت لاہور پولیس کی دیگ کے چاول بھی چیک کرلیں یہاں پر آئے روز بڑھتی ہوئی وارداتیں اور پھر مدعی افراد کا تھانہ میں جانا ایک مذا ق بن چکا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ پولیس جیسے چوروں کی سرپرست بن چکی ہے یا پھر ہمارے حکمرانوں کے گھر کی لونڈی ہے دہشت گردوں اور ڈاکوئوں کی حوصلہ افزائی جبکہ مدعی کی بے عزتی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس کے جوان یہ سب کچھ جان بوجھ کررہے ہیں۔

Thief

Thief

شالامار لنک روڈ سے ایک میڈیکل سٹور والے کی کار چوری ہو جاتی ہے چند دنوں بعد کار چوروں کا گاڑی کے مالک کو فون آتا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ روپے دیکر اپنی گاڑی واپس لے لو مدعی بھاگا بھاگا پولیس کے پاس جاتا ہے اور ساری کہانی جاکر ایس ایچ او تھانہ مغل پورہ کو سناتا ہے تو وہ بڑے مزے سے سن کر جواب دیتا ہے کہ پھر جلدی کرو ڈیڑھ لاکھ روپے دو اور گاڑی واپس لے لو ہم اس معاملہ میں کچھ نہیں کرسکتے اور یہ صوبائی دارالحکومت ہے جہاں پر اب دن کے وقت بھی چوروں اور داکوئوں کا راج رہتا ہے کوئی شریف انسان محفوظ نہیں ہے۔

راہ چلتے ہوئے کسی بھی وقت آپ کی گردن کے ساتھ کوئی سخت چیز لگ جائے گی اور آپ اپنی جان بچانے کے لیے اپنا سب کچھ دینے کو تیار ہوجائیں گے اسی طرح ساہیوال کے ایک تحصیلدار کی گاڑی بھی چور لے گئے پھر انہوں نے اسی تحصیلدار کو ٹیلی فون کرکے پیسوں کی ڈیمانڈ کردی مدعی نے پولیس کو بتایا مگر نتیجہ صفر یہ وہ ہیڈ کوارٹر مقامات ہیں جہاں وزیر اعظم ،وزیر اعلی سمیت ہر اعلی سرکاری افسر موجود ہے کمشنر ،ڈی آئی جی اور پولیس کے حفاظتی دستہ میں ڈی سی او اور ڈی پی او بھی ہیںاورعوام میں بھی ابھی کچھ نہ کچھ شعور ہے۔

اور دیہاتی علاقوں کا اندازہ پڑھنے والے خود لگالیں کہ صرف محکمہ پولیس کا یہ حال
ہے تو باقی محکموں کا کتنا برا حال ہے ایک اور بات جو یہاں بتانا بہت ضروری ہے اور امید ہے کہ سب کو معلوم بھی ہوگی کہ ہمارے ضلعی ،تحصیل اور دیہاتی علاقوں کے جو پولیس کے تھانے ہیں وہ جرائم کی چھوٹی چھوٹی نرسریاں ہیں اور جیل پوری کی پوری یونیورسٹی ہے اور وہاں پر موجود پولیس کا عملہ اپنے آپ کو زمینی خدا سمجھتا ہے اگر انکو کسی کا ڈر ہے تو وہ صرف انکے افسران کا اور بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے افسران خود ان سے ڈرے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر۔ روہیل اکبر
03466444144