’میرا جسم میری مرضی‘

Women's March

Women’s March

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین مارچ منعقد ہونے جا رہا ہے، مگر پاکستان میں ایک مرتبہ پھر ’میرا جسم میری مرضی ‘ کے نعرے پر شدید بحث جاری ہے۔

پاکستان میں گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں اس وقت یہ بحث گالی گلوچ تک پہنچ گئی، جب معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر نے اس نعرے کو ‘غلیظ‘ قرار دیا، جس پر پروگرام میں شریک سماجی کارکن ماروی سرمد نے متعدد مرتبہ ‘میرا جسم میری مرضی‘ کا نعرہ دہرایا۔ اس پر خلیل الرحمان قمر کی جانب سے نازیبا الفاظ کے استعمال پر پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین زبردست بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔

پاکستان کا قدامت پسند معاشرہ جو کئی معاملات پر تقسیم کا شکار دکھائی دیتا ہے، اس معاملے پر بھی دو واضح گروہوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک طرف تو لبرل اور روشن خیال طبقہ ہے، جو خلیل الرحمان قمر کی بھرپور مذمت کر رہا ہے جب کہ دوسری جانب قدامت پسند خلیل الرحمان کے لیے داد و تحسین میں مصروف ہیں۔

اس پروگرام کا کلپ اس وقت سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ خلیل الرحمان قمر نے اپنی گفت گو آغاز کرتے ہوئے نہایت جذباتی انداز میں ‘میرا جسم میری مرضی‘ کو ‘غلیظ‘ قرار دیا، جس پر ٹیلی فون لائن کے ذریعے پروگرام میں شامل ماروی سرمد نے احتجاج کرتے ہوئے بار بار یہ نعرہ دہرایا۔

یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ مرتبہ خواتین مارچ کے موقع پر اس نعرے پر بڑی لے دے ہوئی تھی۔ پاکستان میں قدامت پسند طبقے کا کہنا ہے کہ اس نعرے کے ذریعے معاشرے میں ‘بے حیائی‘ عام کی جا رہی ہے کیوں کہ خواتین کے اپنے جسم پر اپنی مرضی کا اختیار کسی ‘اسلامی معاشرے‘ میں نہیں ہوتا۔ دوسری جانب روشن خیال طبقے کا مؤقف ہے کہ یہ بنیادی انسانی حق ہے اور اسے کسی صورت چھینا نہیں جا سکتا۔

ماروی سرمد نے اس پروگرام کا کلپ ٹوئیٹ کرتےہوئے اپنی پوسٹ میں لکھا، ”یہ وہ شخص ہے جو اخلاقیات اور طرح داری کا درس دیتا ہے۔ خواتین مارچ مخالفین کا اصل چہرہ یہاں دیکھیے۔‘‘

معروف کالم نگار عمار مسعود نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا، ”جس معاشرے میں ماروی سرحد جیسی ذہین خواتین کو ولن بنا کر پیش کریں اور ایسے تھڑے باز ہیرو کہلائیں گے۔ اس جاہل معاشرے میں یہی کچھ ہو گا۔ اس میں اینکر بھی برابر کی قصور وار ہے۔ اس کو پروگرام بند کر دینا چاہیے تھا یا ایسے بدتمیز کو شخص کو شٹ اپ کال دینی چاہیے تھی۔‘‘

ممتاز صحافی رضا احمد رومی اس حوالے سے کہتے ہیں، ”ماروی سرمد کے ساتھ یک جہتی اور ایک لکھاری ہونے کا دعویٰ کرنے والے کی جانب سے ایک شرم ناک اور ناقابل قبول عمل۔ اس شخص کو باقاعدہ مدد کی ضرورت ہے یا کم از کم ٹی وی چینلز والے اسے اسکرین پر لانے سے روک کر اس کی مدد کر سکتے ہیں۔

معروف سماجی کارکن اور نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے والد ضیاالدین یوسف زئی اس موضوع پر ہیش ٹیگ #AuratMarch2020 کے ساتھ لکھتے ہیں، ”ان صدیوں سے بیمار مردوں كو مہذب ہونے میں وقت لگے گا۔ لیكن یقین كیجیے كه آنے والا كل عورتوں كا ہے۔ گالی گلوچ دراصل بوكهلاہٹ اور ہار كی پہلی نشانی ہے۔ پر آپ كے سچ اور دلیل كی آواز دور دور تک جائے گی۔ سلامت رہو!‘‘

دوسری جانب ممتاز صحافی انصار عباسی لکھتے ہیں، ‘’میرا جسم میری مرضی‘‘ معاشرہ میں بے راہ روی، بے شرمی اور بے غیرتی کو فروغ دینے کی مہم ہے جس کا مظاہرہ ہم گزشتہ چند سالوں کے دوران دیکھ چکے۔ یقیناً عورت کو ہمارے معاشرہ میں وہ حقوق حاصل نہیں جن کا حکم ہمارا دین دیتا ہے، جس کا حل ملک میں نفاذ اسلام ہے نہ کہ اسلام سے دوری کا کوئی نسخہ۔‘‘