کیا چین کی نظریں افغانستان کے کھربوں ڈالر کے قدرتی وسائل پر مرکوز ہیں؟

Taliban

Taliban

چین (اصل میڈیا ڈیسک) الائنس برنسٹائن میں ابھرتی ہوئی مارکیٹ قرضوں کے امور کی ڈائریکٹر شمائلہ خان نے افغانستان کی معدنی دولت کا اندازہ لگاتے ہوئےان نایاب معدنیات کا حساب کھربوں ڈالر میں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین جیسے ممالک جن کی نظریں افغانستان کے وسائل پر ہیں انہیں بین الاقوامی شرائط اور قوانین پرعمل کرنا چاہیے۔

شمائلہ خان نے مزید کہا کہ طالبان باغی ایسے وسائل کے ساتھ ابھرے ہیں جو دنیا کے لیے ایک انتہائی خطرناک ہیں۔اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ افغانستان میں موجود معدنی وسائل کا استحصال کیا جاسکتا ہے۔

یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہےجب دوسری جانب افغانستان اس وقت طالبان جیسے عسکریت پسند گروپ کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ طالبان نے دارالحکومت کابل اور صدارتی محل پربھی قبضہ جمالیا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے اپریل میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے فیصلے کے بعد طالبان نے میدان جنگ میں حیرت انگیز پیش رفت کی ہے – اور تقریبا پورا ملک اب باغیوں کے کنٹرول میں ہے۔

شمائلہ خان نے مزید کہا کہ عالمی برادری کو چین پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ خاص طورپر اگر چین طالبان کے ساتھ اتحاد کرنا چاہتا ہے عالمی برادری کو حرکت میں آنا چاہیے۔

واشنگٹن ڈی سی میں افغان سفارت خانے کے سابق سفارت کار احمد شاہ کاتاوازی کا حوالہ دیتے ہوئے ’دی ڈپلومیٹ‘ میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020 میں افغانستان میں نایاب زمینی معدنیات کا تخمینہ 1 ٹریلین ڈالر سے 3 ٹریلین ڈالر کے درمیان ہے۔ اس سال کے شروع میں ہیل نے افغانستان کی بیش قیمت معدنیات کا اس کی قیمت کا تخمینہ تین ارب ڈالر لگایا تھا۔

شمائلہ خان نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر پیش رفت ہونی چاہیے کہ اگر کوئی بھی ملک طالبان کی جانب سے اپنے ملک کی معدنیات کا استحصال کرنے پر راضی ہو تو وہ انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو روکنے کے لیے ایسا کرے۔ بنیادی انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے کوئی ایسا قدم اٹھائے۔

چونکہ امریکا کے ہاتھوں سنہ 2001ء میں طالبان کی سخت گیر حکومت کے خاتمے سے قبل افغانستان میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات عام تھے۔

کاتاوازی کے مطابق افغانستان کی سرزمین نایاب قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور اس میں لینتھانم ، سیریم ، نیوڈیمیم ، ایلومینیم ، سونا ، چاندی ، زنک ، پارا اور لیتھیم جیسے نایاب دھاتیں موجود ہیں۔ یہ دھاتیں لیکٹرانکس آلات اوراشیا کی تیاری سے لے کر الیکٹرک کاروں ، سیٹلائٹ اور ہوائی جہاز تک ہر چیز میں استعمال ہوتی ہیں۔

خان نے کہا کہ چین پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ اگر وہ طالبان کو معاشی امداد دینے کے لیے اتحاد قائم کرنے جا رہاہے تو اسے یہ عالمی شرائط کے تحت کرنا ہوگا۔ دنیا کو یہ دیکھنا ہوگا کہ چین افغانستان میں موجود کھربوں ڈالر کی قیمتی دھاتوں کے حصول کی آڑ میں طالبان کے ساتھ معاہدے نہ کرے۔ چین کو ایسے مقاصد اور عزائم سے دور رہنا ہوگا جن کے نتیجے میں افغانستان کے قدرتی وسائل کا وجود خطرے میں پڑے۔

طالبان کے افغانستان پر حملے کے چند گھنٹے بعد چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بیجنگ افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعاون کے لیے تیار ہے۔

خاتون ترجمان ہوا چونئنگ نے کہا کہ افغانستان کی خودمختاری اور ملک کے تمام دھڑوں کی مرضی کا احترام کرنے کی بنیاد پر چین نے افغان طالبان کے ساتھ رابطے برقرار رکھے گا اور افغان مسئلے کے سیاسی حل کو فروغ دینے میں تعمیری کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔

مسز ہوا کے مطابق طالبان نے “متعدد مواقع پر” کہا ہے کہ وہ افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی میں چین کی شرکت کے منتظر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ اچھے پڑوسی کے طور تعلقات اور دوستانہ تعاون کو مزید فروغ دینے کے لیے تیار ہیں اور افغانستان کے امن اور تعمیر نو میں تعمیری کردار ادا کرتے رہیں گے۔

جولائی کے آخر میں افغانستان بھر میں طالبان کی تازہ کارروائی سے پہلے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے طالبان کی سیاسی کمیٹی کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان کے ایک وفد سے ملاقات کی تھی۔

ایسا لگتا ہے کہ حالیہ دنوں میں چین کے سرکاری میڈیا نے وزارت خارجہ کے اسی طرح کے جذبات کی بازگشت کی ہے۔ گلوبل ٹائمز نے 15 اگست کو ایک مضمون شائع کیا جس میں چینی ماہرین کا حوالہ دیا گیا ہے، جنہوں نے کہا ہے کہ یہ قیاس آرائی چین امریکا کی طرف سے چھوڑے گئے خلا کو پُر کرنے کے لیے فوج بھیج سکتا ہے “مکمل طور پر بے بنیاد” ہے۔