مفتوح صحافت کی ناکام خواہش کا تسلسل

Mubashir Luqman

Mubashir Luqman

تحریر: ایم آر ملک
اسے مفتوح صحافت کی ناکام خواہش کا تسلسل کہا جا سکتا ہے کہ ایک عوامی نیوز چینل اے آر وائی سچ کے جرم میں حکومتی عتاب کا نشانہ ہے جنرل ضیا کی باقیات کے اس اقدام پر حیرت کا ہے کی کہ جنرل ضیاء نے بھی تو سچائی کی راہ کا نتخاب کرنے والوں پر کوڑے برسا کر اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کیا اب یہی کچھ اُس کی باقیات کر رہی ہے مبشر لقمان ان کے سکینڈلز کی غلاظت کو عیاں کرتے رہے جو سول آمروں کو کسی طور قبول نہیں تھا اب یہ اصطلاح بھی دم توڑ رہی ہے کہ عدلیہ آزاد ہے ایک ایسا دشمن جس نے ”جنرل ضیاء کی باقیات ” کو ملکی سرحدوں سے باہر پھینکا اُس کے ہاتھوں میڈیا کی آزادی کو بھلا کیسے قبول کر لیا جائے وزیروں، مشیروں کے بوسیدہ خیالات کا تسلسل ٹوٹنے میں نہیں آرہا ایک ایسا ٹی وی چینل جو سرمائے کا غلام ہے۔

اپنی خبروں اور تجزیوں میں ملک دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا کیا توہین اہلبیت پر اُس پر کوئی کارراوئی ہوئی یا ملکی سلامتی کے ایک ایسے ادارے جو دنیا کی تحقیقاتی ایجنسیوں میں ٹاپ پر ہے کے خلاف پلاننگ کے تحت ٹریلر چلانے پر احتساب کا کوئی ادارہ حرکت میں آیا ایک ایسا ادارہ جہاں ایک کٹھ پتلی سربراہ کو ”یس سر ”کی گردان کیلئے بٹھا دیا گیا اُس سے کوئی بھی محب وطن پاکستانی خیر کی توقع نہیں رکھتا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی کرپشن کے تحفظ کے نظام میں منافع کا حصول اور سرمائے کا تحفظ ایک ایسی مقدس گائے ہے جس کے خلاف کسی بھی محب وطن کا بات کرنا جرم ہے۔

ایک اپوزیشن لیڈر جو شاہ سے زیادہ رائے ونڈ کے شہنشاہ کا وفادار ہے کے نزدیک اپنے سرمایہ دار آقا کا تحفظ انتہائی اہم فریضہ ہے جس پر آنچ نہیں آنی چاہئے میڈیا جو سماج میں معاشی تضادات کو دکھانے کا جرم کررہا ہے بھلا ”سٹیٹس کو ”کو بچانے والی قوتوں کو کیسے قابل قبول ہو سکتا ہے شہر قائد میں ہونے والے جلسہ میں جتنی بڑھکیں ماری جاتیں عوام نے تصور کر لیا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں کوئی نظریاتی اختلاف نہیں جب نظریاتی اختلاف نہ ہو تو پھر اکٹھے ہونے میں کیسی مشکل ؟جب اس اختلاف کی بنیاد ہی کھوکھلی ہو کہ ہم ”جمہوریت کے ساتھ ہیں نواز شریف کے ساتھ نہیں ”تو اس پر تبصرے اور تجزئے میں سچائی کیا ہو سکتی ہے ؟ اس جھوٹ اور تجزئے کو عوام پر مسلط کرنے کیلئے تو ایک چینل صحافتی اقدار کی دھجیاں بکھیرنے کی تمام حدیں عبور کر رہا ہے جبکہ سچائی کا آئینہ دکھانے والے چینل اے آر وائی کو محض اس لئے بند کرنے کی ناکام خواہش کی جارہی ہے تاکہ سچ عیاں نہ ہو ،اس سچ کے ذریعے عوامی تحریک برپا نہ ہو۔

صحافت کی ایک شاندار انقلابی تاریخ ہے شورش کاشمیری کا مقدر سچائی کا تعاقب کرتے ہوئے شاہی قلعہ کے زندان بنے خطرات میں گھرا پریس ایک طرح سے سول آمریت کے دور میں اپنی بقا اور تحفظ کی جنگ لڑ ر ہا ہے صرف اے آر وائی نیوز کو ہی نہیں بلکہ پرنٹ میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کے نجی چینلز ڈان نیوز، سما نیوز، سچ نیوز، نیوز ون کو شدید سرکاری دبائو کا سامنا ہے جس کے باعث ذرائع ابلاغ کے یہ ادارے اور ان سے وابستہ صحافی ایک بار پھر کٹھن دور سے گزر رہے ہیں ایک مضحکہ خیز شرط یہ ہے کہ الیکٹرانک چینل اپنے لئے خود ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دیں کیا چینلز جو ضابطہ اخلاق بنائیں گے اُسے حکومت قبول کر لے گی؟۔

PEMRA

PEMRA

پیمرا کی دسترس میں جو سیاہ قوانین آئے ہوئے ہیں جن کی آڑ میں وہ سچائی کا گلہ گھونٹ رہا ہے اُس کی ایشیئن ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی مذمت کی ہے اے آر وائی کا جرم یہی ہے کہ وہ 68 برس سے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والے طبقہ کا ترجمان ہے جن کی زندگی تشہیر کا ساماں نہیں ایک قرض ہے وہ اُس ریاست کے لوگوں کا ترجمان ہے جہاں روٹی مہنگی ہے اور لہو سستا ہے ایسا طبقہ 68 برسوں سے تنگ دستی اور ذلالت کا شکار ہے جس کی انا کوان جمہوریت کے رکھوالوں نے تہس نہس کر دیا اے آر وائی اُن کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔

آمریت کے کئی چہرے اور اور کئی روپ ہیں جو ہر روز شہر کی دیواروں پر سفاکی کے عبرت ناک افسانے لکھتی ہے ”لوٹ مار بچائو یونین ”جسے جمہوریت کا نام دیا گیا ہے میں ایک محنت کش اپنے لہو سے سینچ کر اپنے خوابوں کی تعبیر کر رہا ہے اور اس جمہوریت کی غلاظت میں لپٹے ہوئے وہی چہرے جنہوں نے ہر عہد میں لخت لخت دلوں کو منافقت کے لفظوں سے دلاسہ دیا اے آر وائی ان چہروں سے منافقت کا نقاب اُتار رہا ہے جن کے پلے سچ ہوتا ہے کٹھن راہوں پر چلنا اُن کا شیوہ ہوتا ہے اس نام نہاد جمہوریت کی بنیاد پر ظلم وجبر کے جو باب رقم کئے جارہے ہیں طاقت کی فرعونیت اور یزیدیت کے پیروکار گدھ بن کر آئین، قانون، اور اخلاقیات کے جنازے کو جس طرح بے رحم پنجوں سے نوچ رہے اُن کا زوال نوشتہ دیوار بن کر اُن کے سامنے آئے گا عوام اس نام نہاد جمہوریت کے نعرے کو ایک بے سری راگنی کے سوا کچھ نہیں سمجھتے صحافیوں کے تحفظ کیلئے اسمبلی میں جو بل پیش کیاگیا ہے اگر اُس کی روشنی میں اے آر وائی کے خلاف کارروائی کا جائزہ لیا جائے جس میں لکھا ہے کہ صحافیوں کے کام میں مداخلت کرنے والے کو 6ماہ سزا اور 55 ہزار جرمانہ ہوگا تو پھر یہ سزا تو پیمرا کے چیئرمین کو ہونی چاہیئے جو حقائق کا چہرہ دکھانے والوں کے خلاف مزاحمتی کردار ادا کر رہا ہے جبکہ عدالت عالیہ نے بھی کوئی فیصلہ نہیں دیا اس بندش پر عدالت عالیہ نے یہ ریمارکس دیئے کہ ہم نے کوئی فیصلہ نہیں دیا یوں پیمرا کے چیئر میں توہین عدالت کی زد میںتو آتے ہی ہیں مگر حکمران مفتوح صحافت کی ناکام خواہش کا شکار ہیں۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر: ایم آر ملک