صرف معطل کر دینے سے بات نہیں بنے گی

Police Attack

Police Attack

تحریر : ایم ایم علی
ٹیلی ویژن آن کیا تو ایک چینل پر ایک سی سی ٹی وی فوٹیج چل رہی تھی جس میں کچھ پولیس اہلکار ایک شخص کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اس خبر کی تفصیل سنی تو معلوم ہو ا کے کے مٹھی گرم نہ کرنے پر ایک ایس ایچ او صاحب ایک ہوٹل مینجر کو سبق سکھا رہے ہیں ۔اس ہو ٹل میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے جس کی وجہ سے کیمرے کی آنکھ نے یہ مناظر محفوظ کر لیے اور یہ ویڈیو میڈیا میں آگئی، حالانکہ ہمارے ملک میں اسطرح کے کئی واقعات روزانہ رونما ہوتے ہیں ۔پولیس کا محکمہ بنایا تو عوام کی خدمت کیلئے گیا تھا اور اس محکمے کا پہلا بنیادی مقصد جرائم پہ قابو پانااور دوسرا بنیادی مقصد عوام کی خدمت ہے،لیکن پولیس عوام کی خدمت کیسے کرتی ہے اس کی کئی مثالیں الیکٹرنک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر آئے روز پڑی اور دیکھی جا سکتی ہیں۔

عام آدمی اتنا تو شاید کسی بدمعاش اور غنڈے سے بھی نہیں ڈرتا ہو گا جتنا پولیس سے ڈرتا ہے ۔ویسے تو آپ کو تقریبا سب تھانوں میں ایک حدیث شریف لکھی ہو ئی ملے گی کہ (رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں) لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ رشوت اور سفارش کے بغیر اس محکمے سے کوئی جائز کام بھی ہو جانا معجزہ تصور کیا جاتا ہے میں یہ نہیں کہتا کے سب پولیس والے ایک جیسے ہوتے ہیں یا پورے کا پورا پولیس محکمہ کرپٹ ہے ۔ کیو نکہ کوئی بھی محکمہ پورے کا پورا خراب نہیں ہو تا ،صرف چند لوگوں کی برائی کو پورے محکمے کی برائی کہنا مناسب نہیں ہوگا ۔ کئی پولیس والوں نے فرائض منصبی کے دوران اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے ہیں،لیکن اس محکمے کو لے کر عام عوام کے اندر جو رائے پائی جاتی ہے وہ انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ لاہور کے جوہر ٹائون میں پیش آنے والے واقعہ کے بعد ایس ایچ او رائے ناصر سمیت چار اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے ۔لیکن کیا صرف پولیس اہلکاروںکی معطلی کا فی ہے ؟کیو نکہ پہلے بھی کئی واقعات میں پولیس افسران سمیت کئی پولیس اہلکاروںکو معطل کیا جاتا رہا ہے لیکن کچھ دنوں بعد وہ دوبارہ بحال کر دئیے جاتے ہیں۔

کیو نکہ ان کو معطل کرنے کہ بعد ان کی انکوئرای ان ہی کے پیٹی بند بھائیوں کے سپرد کر دی جاتی ہے گویا (دودھ کی راکھی بلا) اب ظاہر ہے پیٹی بھائی اپنے پیٹی بھائیوں سے اس طرح سے تفتیش تو کریں گے نہیں جس طرح کی تفتیش وہ عام لوگوں سے کرتے ہیں ۔اگر آزادنہ تجزیہ کیا جائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوگی ،کہ اگر پولیس کا محکمہ اپنے فرائض کی انجام دہی ٹھیک طریقے سے کرے تو ہمارے ملک میں تقریبا 80 فیصد جرائم پہ با آسانی قابو پایا جاسکتا ہے ،کیونکہ اکثر جرائم پیشہ لوگوں کو اسی محکمے میں موجود چند کالی بھیڑوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے بلکہ کئی جرائم میں تو یہ کالی بھیڑیں براہ راست ملوث ہوتی ہیں ۔ میں عمران خان صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہو ں کہ جب تک پولیس کو سیاست سے پاک نہیں کیا جا تا تب تک اس ملک میں انصاف کا حصول ممکن نہیں ہوسکتا۔

Pakistan Police

Pakistan Police

کیونکہ ہماری پولیس عوامی خدمت کی بجائے سیاست دانوں کی خدمت میں مصروف عمل رہتی ہے ،پولیس کا قبلہ درست کرنا تو سب سے پہلے اسے سیاسی وابستگی کی زنجیروں سے آزاد کرنا ہوگا،کیو نکہ ہمارے ملک میں پولیس ایک سیاسی فورس بن کر رہ گئی ہے ۔سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کیلئے اور طاقتور کمزروں کو دبانے کیلئے جاگیر دار اور وڈیرے اپنے مزاروں کو ڈرانے دھمکانے اور ان پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کیلئے اس فورس کا استعمال کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ محکمہ پولیس سے عام آدمی کا اعتماد کم ہو تے ہوتے بالکل ہی ختم ہو چکا ہے ۔کیونکہ جہاں مجرم کو پرٹوکول دیا جائے اور بے گناہ کو سزادی جائے مظلوم کی داد رسی کی بجائے اس کو دھکے دیے جائیں تو بھلا ایسے محکمے پر کوئی اعتماد کیونکر کرے گا ؟ یہاں اگر بات کی جائے پنجاب پولیس کی تو پنجاب پولیس کی افرادی قوت دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے اور مالی بجٹ بھی دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے اور سب سے زیادہ انگلیاں بھی پنجاب پولیس کی کار کردگی پہ اٹھائی جاتی ہیں۔

پنجاب پولیس میں بہت اچھے آفیسر اور سپاہی موجود ہیں لیکن بات پھر وہیںپر آجاتی ہے کہ پولیس میں موجود چند عناصر اس محکمے سمیت تمام اچھے پولیس افسران اور پولیس اہلکاروں کیلئے بھی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔ وزیر اعلی پنجاب اور آئی جی پنجاب اگر ذاتی دلچسپی لیں تو اس محکمے کی اصلاحات کر کے اس کو ایک عوامی محکمہ بنا سکتے ہیں جہاں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے عام آدمی اپنی فریاد لے کر جاسکے اور اس کو اس بات کا قوی یقین ہو کہ اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا ۔جرائم کی پشت پناہی کرنے والوں یا براہ راست جرائم میں ملوث ان کالی بھیڑوں کو بے نقاب کر کے ان کو قرار وقع سزائیں دی جائیںاس سے عام آدمی کا اس محکمے میں اعتماد بحال ہو گا۔وزیراعلی پنجاب اپنی قابلیت کی بنا پر یہ کام کر سکتے ہیں ،کیونکہ اگر ریکارڈ مدت میں ترقیاتی منصوبے مکمل کئے جا سکتے ہیں تو ریکارڈ مدت میں محکمہ پولیس کی اصلاح کیوں نہیں کی جا سکتی۔

لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی مصلتحوں سے بالا تر ہو کر فیصلے کیے جائیں ۔اگر پولیس کے محکمے کو ٹھیک کر لیا جاتا ہے تو ایک تو اس سے صوبے میں گڈگورنس بہتر ہو گی دوسرا یہ کہ عام آدمی کو انصاف کے حصول میں مدد ملے گی اور تیسرا یہ کہ عوامی سطح پرحکومت کا مورل بلند ہو گا ۔ کسی بھی واقعہ کے بعد صرف پولیس اہلکاروں کو معطل کر دینے سے بات نہیں بنے گی۔بلکہ ایسے واقعات سے بچنے کیلئے مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

MM ALi

MM ALi

تحریر : ایم ایم علی