کورونا کے نئے ویرینٹ اومی کرون کا خطرہ، بات ویکسین کی چوتھی ڈوز تک جا پہنچی

Corona Variant Omicron

Corona Variant Omicron

جنوبی (اصل میڈیا ڈیسک) افریقا جنوبی افریقا میں سامنے آنے والے کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ اومی کرون نے دنیا بھر میں پھر ہلچل مچا دی ہے۔

جنوبی افریقا اور اس کے آس پاس موجود ممالک پر دنیا کے تقریباً تمام ممالک نے سفری پابندیاں عائد کردی ہیں تاکہ وائرس ان کے ملک میں نہ پہنچ جائے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے عالمی سطح پر اومی کرون ویرینٹ کے ممکنہ مزید پھیلاؤ کا امکان ظاہر کردیا ہے اور کہا ہے کہ اومی کرون ویرینٹ کےسبب مستقبل میں کورونا کیسز میں اضافہ ہوسکتاہے جس کےسنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔

اومی کرون کے خطرات سے نمٹنے کیلئے کورونا کی ویکسینز تیار کرنے والی کمپنیاں پھر حرکت میں آئیں اور یہ جاننے کی کوشش شروع کی کہ ان کی تیار کردہ کورونا ویکسینز نئے ویرینٹ کیخلاف کتنی مؤثر ہیں کیوں کہ ابتدائی طور پر یہ کہا جارہا تھا کہ اومی کرون ویرینٹ میں اتنی تبدیلیاں ہو چکی ہیں کہ اس پر شاید ویکسینز اثر نہ کریں۔

اس معاملے پر ماہرین نے تجویز دی کہ فوری طور پر کورونا ویکسین کی تیسری ڈوز شروع کی جائے جس کے بعد پاکستان سمیت برطانیہ، امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک میں ویکسین کی تیسری ڈوز کی مرحلہ وار شروعات کردی گئی۔

لیکن امریکی دوا ساز کمپنی فائزر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ڈاکٹر البرٹ بورلا کا کہنا ہے کہ بات تیسری ڈوز سے بھی آگے جاسکتی ہے اور ممکن ہے کہ اومی کرون کے خطرے سے نمٹنے کیلئے ویکسین کی چوتھی ڈوز بھی لگوانی پڑے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا ویکسین کی تیسری ڈوز لگوانے کے ایک سال کے اندر اندر چوتھی ڈوز کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

ڈاکٹر البرٹ اومی کرون کے سامنے آنے سے قبل بھی یہ تجویز دے چکے ہیں کہ عمر رسیدہ افراد کو کورونا ویکسین کے سالانہ بوسٹر ڈوز لگوانے چاہئیں۔

اب فائزر کے سی ای او نے کہا ہے کہ اب ان لوگوں کو ایک سال کے دوران ویکسین کے دو بوسٹرز لگوانے کی ضرورت ہوگی جن کے کورونا سے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ کورونا کی یہ قسم بہت زیادہ تبدیل ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ویکسینز کی مؤثریت کم ہوگئی ہے اور دو ڈوز تو اب بالکل بھی کافی نہیں۔

فائزر کے سربراہ نے کہا کہ کورونا ویکسین کی تین خوراکیں کووڈ 19 سے بہترین تحفظ فراہم کرسکتی ہیں لیکن ماہرین یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ تحفظ کتنی جلدی زائل ہوجائے گا لہٰذا احتیاطاً تیسری ڈوز لگوانے کے ایک سال کے اندر چوتھی ڈوز بھی لگوانے کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اومی کرون کے آنے سے قبل میں یہ کہہ چکا ہوں کہ چوتھی ڈوز تیسری خوراک کے ایک سال بعد لگانی چاہیے تاہم چونکہ اومی کرون کے حوالے سے ابھی ڈیٹا کم ہے اس لیے فی الحال کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا، مجھے لگتا ہے کہ چوتھی خوراک کی ضرورت جلد ہی پڑ سکتی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز فائزر نے کہا تھا کہ اس کی کورونا ویکسین کی دو خوراکیں اومی کرون کیخلاف تحفظ کیلئے کافی نہیں ہیں البتہ یہ کورونا کی پیچیدگیوں کو روک سکتی ہیں۔ اس کے بعد ماہرین نے کہا تھا کہ دیگر کمپنیوں کی ویکسینز کا بھی یہی معاملہ ہے۔

کورونا وبا سامنے آنے کے بعد سے فائزر اور دیگر کمپنیاں اربوں ڈالرز کما چکی ہیں اور گزشتہ دنوں فائزر نے کہا تھا کہ اگر دنیا بھر میں موجود اس کی ویکسینز اومی کرون کیخلاف زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوسکیں تو اومی کرون کیخلاف خصوصی طور پر ویکسین کی تیاری میں آئندہ برس مارچ تک کا وقت لگ سکتا ہے۔

فائزر کا کہنا ہے کہ بوسٹر ڈوز لگوانے کے بعد انسانی جسم میں اومی کرون کیخلاف مزاحمت کرنے والے اینٹی باڈیز کی تعداد 25 گنا تک بڑھ جاتی ہے۔

کہا جارہا ہے کہ یہ اس سے قبل سامنے آنے والے کورونا وائرس ویرینٹ کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ اس میں تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت ہے اور ویکسین کا اثر بھی اس پر کم ہوگا۔

جنوبی افریقا کے محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اس نئے ویرینٹ میں اتنی زیادہ تبدیلیاں ہیں کہ اس کی توقع سائنسدانوں کو نہیں تھی۔ اس ویرینٹ میں ابتدائی کورونا وائرس کے مقابلے میں تقریباً 50 تبدیلیاں ہیں جن میں سے 30 تبدیلیاں اسپائیک پروٹین میں ہیں۔

اب تک بنائی جانے والی ویکسینز وائرس کے اسپائیک پروٹین پر ہی حملہ کررہی تھیں تاکہ وائرس کو انسانی خلیوں میں داخل ہونے سے پہلے ہی تباہ کیا جاسکے۔ اسپائیک پروٹین میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کی وجہ سے دستیاب ویکسینز کا اس وائرس پر اثر 40 فیصد تک کم ہوجائے گا۔

مزید باریکی سے دیکھیں تو اس ویرینٹ کے Receptor Binding Domain حصے (وائرس کا وہ حصہ جو سب سے پہلے انسانی خلیے سے منسلک ہوتا ہے) میں 10 تبدیلیاں ہوچکی ہیں جبکہ بھارت اور دنیا کے دیگر ممالک میں تباہی مچانے والے ڈیلٹا ویرینٹ میں اوریجنل کورونا وائرس کے مقابلے میں صرف 2 تبدیلیاں تھیں۔

چین میں پہلی بار SARS CoV-2 سامنے آنے کے بعد سے سے کورونا وائرس کے اب تک 5 ویرینٹ آچکے ہیں۔ پہلے ویرینٹ کو الفا کا نام دیا گیا تھا جو برطانیہ میں پھیلا اور اسے یوکے ویرینٹ بھی کہا جاتا ہے۔

اس کے بعد بیٹا ویرینٹ سامنے آیا۔ یہ ویرینٹ جنوبی افریقا میں سامنے آیا اور پھر دنیا کے دیگر ممالک میں پھیلا۔

پھر گاما ویرینٹ سامنے آیا جو برازیل میں پھیلا جس کے بعد ڈیلٹا ویرینٹ نے بھارت میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی۔

اچھی بات یہ ہے کہ جنوبی افریقا کے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ نئے ویرینٹ کی اب تک کوئی شدید علامات سامنے نہیں آئیں اور اس سے متاثرہ افراد میں کورونا کی ہلکی نوعیت کی علامات دیکھی گئیں ہیں۔

کورونا وائرس کے دیگر ویرینٹس کی طرح اس سے بھی بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر پر سختی سےعمل کرنا ہوگا۔ کورونا وائرس کی بنیادی ایس او پیز یعنی ماسک پہننا، ہاتھ کو وقفے وقفے دے دھونا، سماجی فاصلے وغیرہ پر عمل کرنا ہوگا۔

یہ تمام تر احتیاطیں اس وقت تک لازمی ہوں گی جب تک اس ویرینٹ کیخلاف ویکسین کی اثر پذیری کے حوالے سے ڈیٹا سامنے نہیں آجاتا۔ اگر موجودہ ویکسینز اس ویرینٹ کے خلاف بھی مؤثر ثابت ہوئیں تو جلد اس پر قابو پالیا جائے گا ورنہ سائنسدانوں کو نئے وائرس کے حساب سے ویکسین میں بھی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔