ملک میں فحاشی کو فروغ

Tik Tok

Tik Tok

تحریر: عقیل احمد خان لودھی

روز روز کا تماشہ بند ہونا چاہئے۔۔ ٹک ٹاکر اور دیگر طوائفیں اپنے اہداف کا تعین کریں کہ آخر وہ اپنے طرز عمل، جسموں کی نمائش سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔؟؟؟

کیا ان کے جسموں کی نمائش سے ملک میں روزگار کے مسائل حل ہو سکتے ہیں؟
کیا ایسا کرنے سے ملک میں تعلیمی گراف بلند ہو سکتا ہے؟

کیا ایسے طرز عمل سے ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہوسکتا ہے؟ امن و امان قائم رکھا جاسکتا ہے؟

کیا ان ٹک ٹاکرز کے بے حیائی میں سٹارز بننے سے ملک میں پھیلے ہوئے کورونا وائرس اور دیگر بیماریوں میں کمی آسکتی ہے؟؟

اگر ایسا ہو سکتا ہے تو انہیں بلا روک ٹوک ایسا کرنے دیا جائے بلکہ انہیں تحفظ کیلئے سرکاری وسائل دیئے جائیں۔ ان پر قوم کے ٹیکس کا پیسہ خرچ کیا جائے۔ انہیں بے حیائی کے مزید تجربات کیلئے لیبارٹریاں بنا کردی جائیں ۔ جہاں یہ آزادانہ مخلوط معاشرت مباشرت سے اپنے جیسے مزید نادر نمونوں کا وجود معاشرے کو دیں۔ اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو پھر ان سے یہ پوچھ لیا جائے کہ آخر ان کے پیش نظر کیا ہے کہ وہ تھرڈ کلاس پورن فلمی طبقے کی طرح ایکشن کرتے ہوئے ٹک ٹاک پر آج کے نوجوان کو ورغلا کر مینار پاکستان تک لے آتے/ آتی ہیں۔ ان طوائفوں کے قبیل میں بڑی تعداد میں وہ لوگ شامل ہیں جن کی عمریں بالی ، ہالی وڈ کی بے حیائی تکتے ہوئے با حیاء معاشرے سے بیزار ہو کر پورن فلموں تک آپہنچی ہے۔ ان کے شب وروز ایسی ہی حرام سرگرمیوں کی نذر ہورہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ میرا جسم میری مرضی کے غلیظ طبقے کی حمایت سے لیکر ٹک ٹاک کا سہارا لینے والی جدید طوائفوں کے دفاع پر اتر آتے ہیں۔ ان طوائفوں کے دفاع میں کھڑے یہ وہی لوگ ہیں جو موقع ملتے ہی ظاہر جعفر بنتے بھی دیر نہیں لگاتے اور پھر مخصوص لبرل طبقے کے سینوں میں ایسی طوائفوں کی ہمدردی کا درد جاگ اٹھتا ہے۔ مینار پاکستان میں ہونے والے واقعہ میں ایک ٹک ٹاکر کا بے حیائی کیلئے دھندناتے پھرنا اور پھر اس کے بعد کے حالات کا ذمہ دار اس قوم کو نہ ٹھہرایا جائے جن کے بائیس کروڑ لوگوں میں باوقار اور حیادار خاندان بھی موجود ہیں۔ جن میں ایسی نیک سیرت فرشتہ صفت شخصیات بھی ہیں جن کا دنیا میں ٹک ٹاک جیسی برائیوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

ہمارے میڈیا پر تسلسل سے چلائے جانے والے نام نہاد مظلومیت کے ٹرینڈ دراصل اس معاشرے کی چھوٹی موٹی خامیوں کی اصلاح کی بجائے اسے مزید بربادیوں اور تباہی کی طرف لیکر جانے کی غرض سے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ وطن عزیز کی سلامتی کے دشمن ممالک ایسے ٹرینڈز کو پروپیگنڈا کیلئے استعمال کرتے ہیں انڈیا جیسے ملک کی ہی بات کر لی جائے جہاں بالی وڈ فلم انڈسٹری میں حیا باختہ مناظر عام ہیں خواتین اداکارائیں چند کپڑے کے ٹکرے جسموں پر چپکائے سینکڑوں کے ہجوم میں ناچ گانے کیساتھ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ ہوا میں کھلونوں کی طرح لہرائی جاتی ہیں۔ وہ ملک ہے جہاں ریپ اور دیگر معاملات ملکی ثقافت کا حصہ دکھائی دیتے ہیں انہیں بھی پاکستان کو بدنام کرنے کا موقعہ میسر آجاتا ہے اور وطن عزیز کی ساکھ پر بدنامی کے دھبے سجانے والی ایسی طوائفیں اور ان کے ہمدرد مختلف چینلز پر اپنے ہی قبیل کے اینکرز پرسنز کے سامنے سکرپٹڈ انٹرویوز میں
ٹسوے بہاتیں اپنے منہ آپ خود کو ہمدردیوں کا مستحق ٹھہراتیں اور معاشرے کو بدنام کرتی نظر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی ان کے ہمدردوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے نظر آتے ہیں۔ مینار پاکستان کے احاطہ میں ہونے والے واقعہ میں مبینہ متاثرہ معزز خاتون کی پہچان ایک ٹک ٹاکر سٹار بتائی جاتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ معصومہ نے اپنی معصومانہ دلفریب اداوں سے اپنے پرستاروں (تماش بینوں) کو احاطہ میں باقاعدہ اطلاع دیکر بلایا جو اس کی اپنی ٹیم کے بھی پندرہ بیس لوگ ساتھ آئے۔ احاطہ مینار پاکستان میں آنے والی معزز ٹک ٹاک اسٹار کا عقیدتمندوں کے ہجوم نے والہانہ استقبال کیا۔ جس کا موقع پر اسکا کوئی رنج نہ ہوا۔ اور پھر معاملے کی نزاکت اور اس کو کیش ہوتا دیکھ کر ان کا درد جاگ اٹھا۔ بتایا گیا کہ کچھ نا ہنجار پرستاروں نے ان کیساتھ غیر معمولی حالات بنائے ہیں جو ان کی طبیعت پر گراں گزرے ہیں۔ ان کا عورتانہ تشخص پامال ہوا ہے۔ پبلک پراپرٹی اسٹارز کو تو پرستاروں کی ہمیشہ سے والہانہ چاہت کریڈٹ میں ملتی ہے پھر یہ سب کیا ہے!

معاملہ پسند نا پسند کا بھی ہوسکتا ہے اور شاید زیادہ تھوڑے کا بھی کہ پرستار ان کی ڈیمانڈ سے کم آئے ہوں یا زیادہ آگئے ہوں۔ مگر بنائے گئے ضابطہ فوجداری کیس میں چار سو افراد کو گھسیٹ لانا سراسر بددیانتی اور ناانصافی ہے۔ یہ عام فہم بات نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی جگہ ایک معصوم نہتی شریف معزز خاتون جائے اور اسے موقعہ پر موجود چار سو افراد ہی آسان شکار سمجھ کر گھیر لیں۔ پاکستان میں بے غیرتی اور بے شرمی کی شرح کا گراف ابھی اتنا بھی بلند نہ ہوا ہے کہ چار سو افراد کسی جگہ موجود ہوں اور وہ چار سو ہی بے غیرت ہوجائیں۔ میں نے یہ ویڈیو نہیں دیکھی البتہ میں یہ پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر واقعتا ہی اتنے بے غیرت لوگ ایک جگہ جمع ہوگئے تھے تو بے غیرتوں کی اتنی بڑی تعداد میں ایک معصوم بے ضرر صنف نازک کا صحیح سلامت واپس لوٹنا ممکن نہیں تھا۔ خاتون کے شعبدہ باز اینکرز کے لئے جانے والے انٹرویو میں وہ ہشاش بشاش نظر آرہی ہیں اور باپردہ بھی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں ایسی باپردہ خاتون کو پریشان کرنے کیلئے پاکستان میں سینکڑوں افراد کا بے غیرت ہوجانا ملکی تاریخ کا انوکھا اور سمجھ سے باہر واقعہ ہے۔

البتہ یہ معاملہ سمجھ میں ضرور آتا ہے کہ سٹار کیساتھ آئے ہوئے شہابیے منصوبہ بندی سے یہ واردات کرگئے ہوں اور پانچ دس تماشائی بھی ساتھ ہو لئے ہوں۔ اور پھر ایسے معاملے پر سینکڑوں افراد کو بے غیرت کہہ دینا اور معاشرے پر بے غیرتی کا لیبل لگا دینا یقینا اس لبرل طبقے کی چالاکی ہے جن کی منشاء و مقصود ہی وطن عزیز کی بدنامی ہے۔ جو در حقیقت مادر پدر آزاد معاشرے کے داعی ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کی مائیں بہنیں بیٹیاں بھی ان کی ماؤں بہنوں بیٹیوں کی طرح آزاد ہوجائیں جو اپنے جسم اور مرضیاں لئے ہر ایرے غیرے کیساتھ آزاد پھرتی نظر آئیں۔ ایسے موقع پرست لبرلز خواتین کے آزادی مارچ میں بطور ظاہر جعفر ساتھ ساتھ حمایتی بن کر بھی پھرنے میں عار محسوس نہیں کرتے بلا جھجھک ان سرگرمیوں کی پشت پناہی کرتے اور موقعہ ملتے ہی کسی جنسی درندے کی طرح واردات ڈالنے سے گریز نہیں کرتے۔ ایسی وارداتوں کے بعد بھی عورت کارڈ کھیلنا اور معاشرے کو مجموعی طور پر ریپسٹ کہنا یا کہلوانا لبرل طبقے کا ہی ایجنڈہ ہے۔ایسے بے غیرت خاندان جو اپنی بیٹیوں کو بے حیائی میں ٹک ٹاک اسٹار بنتا دیکھ کر اور ان کی آمدن پر خوشی محسوس کرتے ہیں وہ اس معاشرے کے بڑے مجرم ہیں۔

عورتوں کی آزادی کی بات کرنے والوں کو پھر اپنی عورتوں کیساتھ ایسے واقعات پر معمولی معاملہ سمجھ کر چپ سادھنی چاہئیے کہ برابری اور آزادی کی بات میں مرد اور عورت کی تفریق کیوں؟ جب اللہ کی حدود کو پامال کر کے پردہ اور لباس کی بے حرمتی کو فخر سمجھا جائے گا تو پھر ایسے واقعات سوسائٹی میں معمولی تصور ہوں گے، انہیں بڑے جرائم کی کٹیگری میں لانا کیسے ممکن ہوگا۔ معاملہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے ہماری نسلوں کو بے راہ روی، بے حیائی کی طرف مائل کرنے والوں کی پہچان کرنا بحثیت قوم/ مسلمان / مہذب معاشرے کے رکن کے ہم سب کا فرض ہے۔ بے غیرت ہو چکے خاندانوں سے،ان کی گندی اولاد اور ان کے گندے عزائم سے بچنے کیلئے ہمیں ان غلیظ لوگوں کا سوشل میڈیا سمیت ہر پلیٹ فارم پر بھرپور جواب دینا ہوگا۔ برسر اقتدار اور مسند انصاف طبقہ کو اس معاملہ کا نوٹس لینا ہوگا اور کسی بھی کارروائی سے قبل عجلت میں سینکڑوں افراد کیخلاف درج کی گئی ایف آئی آر کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ آخر اس طبقے کے پاس وہ کون سا پیمانہ ہے جس سے انہوں نے سینکڑوں افراد کو بے غیرت جان لیا۔ ایسی ایف آئی آر میں ملزمان کی گرفتاریوں سے قبل جرم کو ایزاد کرتے ہوئے اس خاتون اور اس کے ساتھیوں کو بھی مقدمہ کا حصہ بنا کر کارروائی کو آگے بڑھایا جائے کہ یہ خاتون اور اس کے ساتھ کس قانون کے تحت اور کس کی اجازت کیساتھ ٹک ٹاک انڈسٹری کیلئے پبلک مقام پر بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کیلئے ہلہ گلہ کررہے تھے؟ اور ان کے اکاؤنٹس سے وہ تمام مواد اکٹھا کر کے ان کیخلاف مقدمہ بنایا جائے جس میں بطور نامحرم ایک دوسرے کیساتھ غیر اخلاقی پوزبنا کر انہیں پبلک کیلئے آن نیٹ کرتے ہیں۔ اور مزید یہ کہ بے حیائی پھیلانے والے، لغو باتوں اور چرب زبانی سے نئی نسل کو خراب کرنے والے مردوں سمیت جسموں کی نمائش کرنے والی تمام ٹک ٹاکرز خواتین سے پوچھا جائے کہ آخر ان کے اہداف کیا ہیں؟ یہ واقعی بہت معصوم اور معاشرے کے کارآمد لوگ ہیں تو پھر ان معصوم لوگوں کی حرکات و سکنات اور معاملات کو قانونی حیثیت دیکر روز روز کا تماشہ بندکرایا جائے۔

AQEEL AHMAD KHAN LODHI

AQEEL AHMAD KHAN LODHI

تحریر: عقیل احمد خان لودھی