ڈاکٹر طاہر القادری، کارکن اور انقلاب

Dr Tahir-Ul-Qadri

Dr Tahir-Ul-Qadri

ڈاکٹر طاہر القادری، عہد کے عظیم عالم دین، دانش ور اور مفکر ہیں جنہوں نے اپنی شناحت بطور عالم دین بنائی۔ ادارہ منہاج القرآن اور پھر تحریک منہاج القرآن اور پھر پاکستان عوامی تحریک کے نا م سے میدان سیاست میں قدم رکھا۔ دوست احباب کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری سیاست میں نہ آتے تو غیر متنازع مذہبی شخصیت ہوتے۔ لیکن راقم کا خیال ہے کہ پڑھے لکھے اور اعلیٰ اذہان کے لوگوں کو سیاست میں آنا چاہیے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری جب مصطفوی انقلاب بپا کرنے کے لئیے میدان عمل میں تھے راقم بھی قافلہ انقلاب میں شریک تھا۔ تکمیل پاکستان مہم اور مصطفوی انقلاب فنڈکی کمپین کا حصہ بھی رہا۔ عوام کی عدم پذیرائی کے باعث ڈاکٹر طاہر القادری نے عوامی تحریک کو غیر فعال اور تحریک منہاج القرآن کو فعال کرنے کی ہدایت فرمائی ۔پرویز مشرف کے مارشل لا کے بعد عوامی تحریک کو پھر سامنے لایا گیا۔

الیکشن میں حصہ لیا تھا، بدترین ناکامی کے بعد ایک بار پھر عوامی تحریک کو ڈبوں میں بند کرکے تحریک منہاج القرآن کو فعال کردیا گیا۔ 2012 میں ڈاکٹر طاہر القادری پھر انگڑائی لیتے ہیں اور 23 دسمبر 2012 میں مینار پاکستان پر ایک عظیم الشان جلسہ کیا جاتا ہے۔ عوامی مارچ اسلام آباد پہنچ جاتا ہے۔ میڈیا پر ڈاکٹر طاہر القادری اور تحریک منہاج القرآن کی بازگشت دنیا بھر میں گونجتی ہے۔ بدلتے بیانات اور غیر واضح پروگرام کے باعث عوام میں شک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ میڈیا نے بھی خوب ٹرائیل کیا اور ڈاکٹر طاہر القادری وہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ جس کے لیئے انہوں نے کنیڈا سے واپسی اختیار کرتے ہوئے ایک بڑی تحریک بپا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ڈاکٹر طاہر القادری 23 دسمبر کے جلسہ کے بعد اور اس سے قبل سے آج مختلف نظر آتے ہیں۔ ان کے خیالات نوے ڈگری سے تبدیل ہوئے ہیں۔ کنیڈا جانے سے قبل ڈاکٹر طاہر القادری کئی ابہامات کا شکار نظر آتے تھے ایسا لگتا تھا کہ وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

اس کے لئے انہیں بہتر راستہ نظر نہیں آ رہا ہے اور نہ ہی وہ اس حوالے سے واضح پوزیشن رکھتے ہیں بلکہ کنفیوژن کا شکار ہیں جو کبھی خالصتاّ عوامی انداز اختیار کرتے ہیں اور کبھی خالصتاّ مذہبی رویہ اپناتے ہیں۔ کبھی وہ خود کو محض ڈاکٹر طاہر القادری کہلانا پسند کرتے ہیں اور کبھی شیخ الاسلام، مجدد وقت اور عظیم شخصیت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں یہ ان کی شخصیت کے تضادات ہیں اور ان کے نظریات بھی مبہم ہیں۔ وہ کبھی مصطفوی انقلاب کی بات کرتے ہیں اور ملک کو اسلامی فلاہی ریاست بنانیکا خواب دیکھتے ہیں اور کبھی سماج میں اولیااللہ کے خانقاہی نظام کی بحالی کی جانب دیکھتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جو ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی جماعتوں عوامی تحریک، تحریک منہاج اور ادارہ منہاج القرآن کے ساتھ مستقل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں لوگ جو ڈاکٹر طاہر القادری سے عقیدت رکھتے ہیں وہ ایک کیڈر نہیں بن پائے ہیں۔آج بھی ان کے سیاسی و مذہبی حالات گومگوں سے دو چا رہیں۔ وہ مکمل سیاسی ہیں اور نہ ہی مکمل مذہبی ہیں بے شمار ابہام کا شکار ہیں۔

Minar-E-Pakistan Jalsa

Minar-E-Pakistan Jalsa

انقلاب جسکی صدا ڈاکٹر طاہر القادری دے رہے ہیں اس حوالے سے ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس ایک بھی کیڈر نہیں ہے۔ یہ ایک بہت بڑا خلاء ہے۔ جس قدر ڈاکٹر القادری کے پاس کارکنوں کی کھیپ ہے اور ایک نیٹ ورک ہے پاکستان میں انقلاب بپا کرنا ڈاکٹر طاہر القادری کے لئے اتنا مشکل نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ انہوں نے اپنے تمام تر تحریکی، مذہبی اور سیاسی جدوجہد میں قیادت تیار نہیں کی ہے لیکن اسکے بجائے ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے عقیدت مند غلام بنائے ہیں اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ غلاموں سے خدمت کا کام تو لیا جا سکتا ہے انقلاب بپا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی نظام بدلے جا سکتے ہیں۔ غیر جانبداری سے آج بھی ڈاکٹر القادری کے کارکنوں کی ذہنی حالت اور ان کی سوچ کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جیسے ڈاکٹر القادری کے آج کے سیاسی فلسفہ کی سوجھ بوجھ ہو یا وہ انقلابی کارکن کے طور پر ڈاکٹر طاہر القادری کا ہتھیار بن سکیں بلکہ وہ دوسرے لوگوں کی طرح یقین رکھتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو کہیں سے گرین سگنل موصول ہوا ہے۔

وہ کسی کے اشارے پر یہ تمام تر پریکٹس میں مشغول ہیں یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے۔ اسکے علاوہ بھی عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن میں بہت ابہامات موجود ہیں جس کے باعث ڈاکٹر القادری ایک ایسے ڈھیر پر کھڑے ہیں جسکے نیچے اسقدر نرم بھوسا ہے کہ وہ تھوڑا سا بھی بوجھ برداشت نہیں کر سکتا ہے۔تنظیم اور جماعت کے حوالے سے ڈاکٹر القادری آج بھی کسی بڑی خوش فہمی یا غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ انکی عوامی  تحریک یا تحریک منہاج القرآن کے کارکن مزید ممبر سازی کر کے جماعت کے حجم کو بڑھائیں گے اور عوامی تحریک تبدیلی لانے کے قابل ہو جائے گی۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا دوسرا پہلو انتہائی اہم ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کنیڈا میں پانچ سالہ خود ساختہ جلا وطنی کے دوران بہت کچھ سیکھا ہے بالخصوص سیاسی نظام اور انقلاب کے حوالے سے ان کی پوزیشن بہت واضح ہے۔ 23 دسمبر کا مینار پاکستان میں جلسہ اور 14 جنوری کا لانگ مارچ اوبعد ازاں عوامی انقلاب مارچ کے جلسوں اور 11 مئی کے انتخابات کے پولنگ ڈے پر احتجاجی دھرنے کے پروگرام کی عدم پزیرائی اور ناکامیوں کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری ایک نئے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

Minhaj-Ul-Quran

Minhaj-Ul-Quran

انقلاب کی حکمت عملیاں نظام کے حوالے سے پوزیشن سمیت سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور نظام بدلنے کے حوالے سے ان کا موقف بہت واضح اور جان دار طور پر سامنے آیا ہے اور ان کا لب ولہجہ بھی خالصتاّ انقلابی نظر آتا ہے۔ آج کا ڈاکٹر طاہر القادری پہلے والے ڈاکٹر قادری سے بہت ہی مختلف ہے ہونا بھی ایسا ہی چاہیے تھا۔ آج بھی قادری صاحب کو دو ٹوک موقف اپنانے کی ضرورت ہے چاہیے اسکے لئے کوئی بھی قیامت ٹوٹ پڑے۔ آئنیت، قانونیت جمہوریت وغیرہ کے سہارے نہ لئے جائیں اور سخت موقف اپناتے ہوے موجودہ ظالمانہ نظام کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کا آغاز کیا جائے اور دو ٹوک طریقے سے نظام کو جڑ سے اکھاڑنے اور انقلاب بپاکرنے کا موقف اپنایا جائے۔

ایک تحریک بپا کی جائے جو حتمی ہو اور اسکی منزل صرف اور صرف انقلاب ہو۔ ایسی طرح ڈاکٹر طاہر القادری عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنان کی بھی تربیت کریں اور انقلاب کیلئے لوگوں کا انتخاب کرکے انہیں نئی قیادت کیلئے تیار کریں۔ عوام میں شعور آچکا ہے اور عوام انقلاب کے لئے تیار ہیں۔ ضرورت انقلابی قیادت کی ہے، جس کی عوامی تحریک میں کمی ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری بھی اس سے محروم ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو اسکی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تحریر : ارشد سلہری