جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے!!

Election

Election

کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، اس لئے جھوٹ زیادہ دور چل نہیں پاتا۔ پوری قوم نے دیکھا کہ الیکشن سے پہلے جھوٹ بولنے کاپہاڑ کھڑا کر دیا گیا تھا۔ میں یہ کر دونگا میں وہ کر دونگا، ہماری حکومت آگئی تو مہنگائی ختم کر دیا جائے گا، پیٹرول کے نرخ کم کر دیئے جائیں گے۔ غرض کہ ہر طرح سے عوام کو گمراہ کرکے اقتدار والے وڈیرانہ طریقے سے، جاگیردارانہ طریقے سے، سرداری طریقے سے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر وہ سارے وعدے بھول کر اپنی ہی کرتے ہیں جو انہیں کرنا ہوتا ہے۔ دو دن کے بعد جولائی کا مہینہ شروع ہونے کوہے اور پیٹرول کے نرخ بڑھانے کا عندیہ آج ہی سے اخباروں میں دے دیا گیا ہے۔ مہنگائی ہے کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہی ایسے میں پورے کا پورا اقتدار خاموش تماشائی نظر آتا ہے۔ ریاست کے ارباب ترقی کی جو باتیں روزآنہ میڈیا اور اخباروں میں کرتے رہتے ہیں وہ نہ صرف کھوکھلے دعوے ٰ ہیں بلکہ ان میں سچ کا شائبہ تک نہیں۔

جس ریاست میں انسانی حقوق کی نگہداشت کی کیفیت افلاس کی سطح سے نیچے ہو، اس کی ترقی کے دعوے جھوٹے ہی ہوتے ہیں۔ اب فیصلہ ظاہرہے کہ آپ کو کرنا ہے کہ سچ کیاہے اور جھوٹ کیا ہے۔ بے روزگاری کی شرح اس حد تک تجاوز کر چکا ہے کہ ہر نوجوان بے روزگار پھر رہا ہے۔ جبکہ مرکزی اور صوبائی سرکار، سرکاری نوکریوں پر پابندی لگا کر اپنے اپنے کارکنوں کو خاموشی سے نوکریوں کی بندر بانٹ میں مصروفِ عمل ہیں۔ کہتے ہیں کہ سب کو سرکاری نوکری نہیں دی جا سکتی تو میرے بھائی نہ دو سب کو، لوگ پرائیوٹ نوکری بھی کر لیں گے مگر کیا ہمارے یہاں حالات اس قابل ہیں کہ پرائیوٹ سیکٹر کے لوگ کام کر سکیں۔ پرائیوٹ نوکری بھی تو جب ہی ملے گی جب آپ کے یہاں انڈسٹریاں لگیں گی۔یہاں تو بجائے فیکٹری، کارخانے لگانے کے لوگ یہاں سے وائنڈ اپ کر رہے ہیں تو بھلا نوکری کیسے مل سکتی ہے۔سیاست کے مکینوں! اب انتخابات کا موسم ختم ہو چکاہے اور عملی اقدامات کرنے کا عمل شروع ہوناچاہیئے تاکہ عوام کی داد رسی ہو سکے۔

Inflation

Inflation

نہ کہ دوسروں کی طرح آپ بھی کسی نہ کسی بہانے مہنگائی کو بڑھانے پر ہی توجہ دے رہے ہیں۔ گیس کے بل کو کئی سلیب میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ میرے اپنے ذاتی گھر کا بل پہلے چار سو روپئے کے لگ بھگ آتاتھا اور اس مہینے وہی بل نہ جانے کیوں ڈبل آ گیا ہے۔ معلومات کرنے پر پتہ چلاکہ ٩٩ ایم ایف تک استعمال کرنے پر نارمل بل آئے گا دوسری صورت میں سلیب کے ذریعے تقسیم ہوکر بل جو بھی آیاہے بالکل درست ہے۔ماشاء اللہ ! پہلے بھی کہا تھا ناکہ ہندسوں کے ہیر پھیر میں اقتدار والے بہت چوکس رہتے ہیں۔اور جب بھی کوئی اقتدار میں آتاہے تو وہ غریب عوام کی ہی کمر توڑتا ہے۔ اور اس بجٹ میں بھی وہی ہواہے جس کا خمیازہ ہم اور آپ سب ہی اگلے پانچ سال تک بھگتنے والے ہیں۔ اللہ ہم سب کے حال پراپنا خاص رحم و کرم فرما ئے۔ اب آپ موبائل فون کے ریچارج کو ہی لے لیجئے۔

اگر آپ سو روپئے کا ایزی لوڈ یا کارڈ لوڈ کروائیں گے تو غالباً آپ کو اُس سو روپئے سے کٹوتی کے بعد ٦٥ روپئے ہی ملیں گے۔ یہ عوام پر جبری بھتہ خوری نہیں تو اور کیا ہے۔ غریب عوام پر اتنے ٹیکس کا انبار ہے کہ اس کی کمر ہی سیدھی نہیں ہوپا رہی ہے۔ پھر بھی حکومتی سطح پر یہی بیان دیا جاتا ہے کہ عوام کو قربانی دینا پڑ ے گا۔قربانی کے نام پر اب اور کیا چاہیئے جناب!سب کچھ تو عوام ہی کر رہی ہے یا دے رہی ہے۔ نہیں کر رہی تو صرف حکمرانی کیونکہ یہ شعبہ ہمارے یہاں امیروں، وڈیروں، جاگیرداروں کے پاس وقف ہے۔ ہر چند کہ نہ میں سیاسی رہنما ہوں ،نہ کسی سرمایہ دار یا فیکٹری کا مالک واقع ہوا ہوں، مجھے تو کبھی کبھی شبہ سا ہوتاہے کہ ہم لوگ ٹھیک سے عوام بھی نہیں بن سکے ہیں اور یہ شبہ مجھے اس وجہ سے ہوتا ہے کہ عوام کی حیثیت سے پتہ نہیں کتنے الیکشنوں میں حصہ لیا، ہر بار ووٹ دے دے کر عوام کے لئے، عوام کے ذریعے، عوام کی سرکار بنانے کی کوشش کی، لیکن آج تک ایسی کوئی سرکار قومی اور ریاستی سطح پرتو چھوڑیے، بلدیہ اور میونسپل کمیٹی کی سطح پربھی نہیں بن سکا۔

لگتا ہے ہم عوام نہیں بلکہ اس کی سطح سے بھی نچلے درجے کی کوئی گری پڑی چیزہیں یا پھر شاید ہمارے عوامی پن میں کوئی مینو فیکچرنگ ڈفیکٹ ہے اور چونکہ قدرت نے نہ تو اپنا کوئی سروس سینٹر کھول رکھاہے اور نہ ہی کسی کی پیدائش پر وہ ری پلیسمنٹ کی کوئی گارنٹی یا وارنٹی دیتی ہے کہ بناوٹ میں نقص پایا جائے تو خراب عوام کے بدلے میں نیاعوام دے دیا جائے گا، لہٰذا عجیب سی باتیں سوچتا رہتا ہوں اور دل مسوس کر رہ جاتا ہوں۔آہ، بے چارے عوام۔ اس سب کے باوجود مجھے ہر دم دھڑکا لگا رہنے لگاہے کہ کہیں ایسانہ ہو کہ ایک صبح ہم سو کر اٹھیں اور اٹھتے ہی ہمیں یہ پتہ چلے کہ ہم راتوں رات، لیٹے لٹائے، مہنگائی کو برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے،اور بے روزگاری سے تنگ معاشرے کے نوجوان بھی دگر گوں صورتحال کے باعث اپناآپ کھو چکے ہیں۔

People

People

مطلب یہ کہ سب کچھ یکسر تبدیل ہوا چاہتا ہے یعنی کہ حقیقت میں عوام مَر چکی ہے اور اس کا کوئی پوچھنے والا ہی نہیں رہا۔ شاعر سے بہت معذرت کے ساتھ:
اٹھو ! وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو! حکومت چال قیامت کی چل گئی
امتِ مرحوم(عوام ) کے شعور نے تقریباً ایک صدی کے دوران کئی بار ٹھوکریں کھائی ہیں، باربارایک ہی سوراخ سے ڈسی بھی گئی ہے، پھر بھی اپنے آستینوں میں پلنے والے سانپوں کو اپنی بے شعوری کی غذا سے توانا بنانے میں بھی پیش پیش ہی رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے عالی مقام صحافی اور عالی شان دانشورحضرات بھی اپنے دشمن کی
پہچان نہیں کر سکے۔ کچھ لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ باطل قوتوں کا ساتھ دے کر اپنی دنیاوی آسائشوں اور مال و اسباب کو بچا لیں گے، یہ محض ان کی خوش فہمی ہے، دشمن تو ہمارا ازلی دشمن ہے وہ تو ہر دور میں ہی نئے حربوں اور نئے طریقوں سے ہم پرحملہ آور رہا ہے، آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا، کبھی یہ جنگ و جدل کے ذریعے، کبھی پیار و محبت کے ذریعے، کبھی زرتار بیش قیمت عبائیں و تحائف کے ذریعے یا پھر بے تحاشا مال و دولت کے ذریعے ہمیں اپنے آہنی قدموں تلے دبائے رکھنا چاہتا ہے۔ آج اسی وجہ سے ہمارا حال یہ ہے کہ پوری قوم کراہ رہی ہے، تڑپ رہی ہے اور کوئی اس کا پُرسان حال نہیں، اس لئے کہ قوم کے رہنما دشمنوں کے آلۂ کار بن کر اپنی دنیا سنوارنے میں لگے ہوئے ہیں، امریکہ کے کہنے پر دورے کرتے ہیں، موٹی موٹی رقوم لاتے ہیں۔

ان سے لگژری گاڑیاں خریدتے ہیں، بنگلے اور عالی شان کوٹھیاں بنواتے ہیں اور قوم کے غم میں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں شب بیداری بھی کرتے ہیں۔یہی ہے ہمارے لئے سب سے بڑی شرمناک بات اور اسی کا خمیازہ اس ملک کے عوام بھگت رہے ہیں۔ کاش کوئی اس طرف بھی توجہ دے!جب یہ رہنما خود ہی ترقی کریں گے تو اس عوام کا دستر خوان تو دنیا کی بھوکی قوموں کی طرح لوٹ کھسوٹ کے لئے تر نوالہ بنارہے گا؟اللہ رب العزت ہم سب کو بشمول ہمارے رہنمائوں کے عقلِ سلیم عطا کرے اور ہمیں غرقابی کی صورتحال سے محفوظ فرمائے۔ آمین

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی