جرمنی: کورونا کے پھیلاؤ کے سبب پابندیاں سخت تر

German Police

German Police

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمن چانسلر انگیلا میرکل کورونا انفیکشن کے پھیلاؤ کی تشویشناک صورتحال کے پیش نظر سخت تر پابندیوں کا اعلان کرنے جا رہی ہیں، جن کا تعلق فرصت کے اوقات کی سرگرمیوں، کھیلوں اور اشیاء خورد و نوش کے شعبے سے ہے۔

انگیلا میرکل علاقائی سیاسی رہنماؤں سے اس بارے میں مذاکرات کر رہی ہیں تاکہ کورونا انفیکشن اور اس سے جنم لینے والی مہلک بیماری کووڈ انیس کے خلاف جنگ کو موثر بنایا جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جن کے نتیجے میں کرسمس کے تہوار تک حالات سازگار ہو جائیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی اطلاعات کے مطابق چار نومبر سے مہینے کے آخر تک نافذالعمل پابندی کے تحت دو مختلف گھرانوں کے افراد کے گھر سے باہر رابطے کو محدود کر دیا جائے گا۔ اسکول ڈے کیئر سینٹرز اور دکانیں کھلی رہیں گی لیکن ہوٹلوں میں رات کے قیام کی اجازت انتہائی ضروری اور واضح طور پر غیر سیاحتی مقاصد کے لیے دی جائے گی۔ بارز، کیفیز اور رستوران بند رکھے جائیں گے لیکن ‘ٹیک اوے‘ اور ‘ہوم ڈیلوری‘ کی سروسز میسر ہوں گی۔ ان نئی پابندیوں سے متعلق جو مسودہ تیار کیا گیا ہے اُس میں یہ بھی شامل ہے کہ ان پابندیوں کا مقصد انفیکشن کے پھیلاؤ کی رفتار کو کم کرنا ہے اور یہ کہ ان ضوابط سے مراد ذاتی روابط اور معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی دور رس پابندیاں لگانا نہیں ہے۔ فیملی اور قریبی دوستوں کو کرسمس کے دوران ملنے کی اجازت ہوگی تاہم اس کے لیے اجتماعی یا مشترکہ طور پر احطیاتی تدابیر بہ روئے کار لانے کی کوشش کرنا ہو گی ، جیسا کہ رواں سال موسم بہار میں کیا گیا تھا۔

جرمنی کے وفاقی نظام کے تحت تمام تر ریاستوں کو انفرادی سطح پر اپنے پنے صوبوں کے لیے قوانین و ضوابط بنانے اور انہیں عائد کرنے کا حق حاصل ہے۔ مثال کے طور پر یہ فیصلہ کرنے کا کہ کون کون سے علاقوں میں زیادہ پابندیوں کی ضرورت ہے اور کون سے علاقے کم متاثر ہوئے ہیں۔ مجوزہ پابندیاں چند علاقوں کے لیے معاشی طور پر زیادہ تکلیف دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔

مشرقی جرمن صوبے تھیورنگیا کے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ والے وزیر اعلیٰ بوڈو رامیلو نے چانسلر میرکل کی پابندیوں سے متعلق تجاویز کی مخالفت کی ہے۔

جرمنی نے اگرچہ رواں سال کورونا کی پہلی لہر کا مقابلہ نسبتاً بہت اچھی طرح کیا تھا تاہم گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کورونا کے نئے انفیکشن کیسز کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ حکومت اور عوام دونوں کے لیے گہری تشویش کا باعث بنا ہے۔ وبائی امراض پر تحقیق کرنے والے برلن کے مشہور زمانہ رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند روز سے جرمنی میں کورونا کے نئے کیسز کی روزانہ تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چُکی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس تناظر میں جرمنی اب بھی ہمسایہ ملک فرانس سے بہت بہتر ہے کیونکہ فرانس میں روزانہ بنیادوں پر درج ہونے والے کورونا کے نئے کیسز کی تعداد 50 ہزار کو بھی عبور کر چُکی ہے یا بلجیم میں صورتحال جرمنی سے کہیں زیادہ سنگین ہے جہاں ہسپتالوں میں مزید مریضوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔

پہلے لاک ڈاؤن کے دوران اسکولوں کو بند کر نے خلاف بچوں اور والدین نے احتجاج کیا تھا۔

اس کے باوجود وفاقی جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر نے متنبہ کیا ہے کہ جرمنی میں رواں ہفتے کے آخر تک نئے کورونا انفیکشن کی تعداد 20 ہزار تک پہنچنے کے امکانات پائے جاتے ہیں کیونکہ انفیکشن کی تعداد میں مسلسل ‘ غیر معمولی نمو‘ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

واضح رہے کہ جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کے کورونا سے زیادہ متاثرہ دو اضلاع میں اسکول، کنڈر گارٹن اور نرسریز بند کر دی گئی ہیں اور شہریوں کو کسی ٹھوس اور معقول وجہ کے بغیر گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ باویریا کے وزیر اعلیٰ مارکوز زؤئڈر، جن کی مقبولیت میں کورونا بحران کے دوران غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، نے کہا ہے کہ بحران سے سختی سے نمٹنے کے لیے اب بہت زیادہ وقت میسر نہیں ہے۔ انہوں نے پابندیوں کو سخت تر کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ساتھ ہی بویریا کے وزیر اعلیٰ سخت پابندیوں کو ملک گیر سطح پر لاگو کرنے کی ضرورت کو اجاگر کر رہے ہیں۔