مسلم ہمدردی کے دعوے بے نقاب

India

India

بھارت میں بی جے پی کی مودی سرکار نے اپنے پہلے بجٹ میں مسلمانوں کے مدرسوں کی جدید کاری کے نام پر ایک سو کروڑ روپے جبکہ ریاست گجرات میں سردار ولبھ پٹیل کی مورتی نصب کرنے کیلئے دو سو کروڑ روپے کا بجٹ مختص کیا ہے جس سے مسلمانوں سے ہمدردی کے تمامتر دعوے بے نقاب ہو گئے ہیں۔گجرات حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ مورتی بنانے میں پچیس کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ مودی سرکار کے اس فیصلہ پر مسلمانوں پر مایوسی پائی جاتی ہے۔ بھارت کی مرکزی حکومت کی جانب سے اس مورتی کیلئے پہلی بار فنڈ کا انتظام کیا گیا ہے۔

ایسا بھارتی وزیر اعظم مودی کی خواہش سے کیا گیا ہے۔ آج سے تین سال قبل جب اترپردیش میں اس وقت کی وزیر اعلیٰ مایاوتی جب نوئیڈا میں بنے دلت یادگار کا افتتاح کرنے پہنچی تھیں تو بی جے پی نے اسے پیسے کا ضیاع قرار دیا تھالیکن اب ولبھ بھائی پٹیل کی مورتی بنوانے کیلئے دو سو ارب روپے خرچ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے جس پر سخت تنقیدکی جارہی ہے۔بھارتی ہندو انتہا پسند تنظیموںکوامریکہ سے بڑے پیمانے پر ڈالرز ملنے کا سنسنی خیز انکشاف ہو اہے جنہیں استعمال میں لاتے ہوئے یہ تنظیمیں پچھلی چند دہائیوں سے بھارت کو خالصتا ایک ہندو ملک بنانے کی زبردست مہم چلارہی ہیں اور مسلم کش فسادات کا سلسلہ پروان چڑھایاجارہا ہے۔

سائوتھ ایشیا سٹیزن ویب(ایس اے سی ڈبلیو) نے انکشاف کرتے ہوئے ہندو انتہا پسند تنظیموں سے منسلک امریکہ کے سماجی خدماتی اداروں کے متعلق اعدادوشمار پیش کئے ہیں اور بتایاہے کہ وہ کس طرح امداد حاصل کر رہی ہیں۔ یہ رپورٹ ٹیکس ادائیگی، دستاویزات اور اخباری رپورٹس پر مشتمل ہے جس میں امریکہ میں ہندو اداروں کی سرگرمیوں اور ان کی پالیسی سے متعلق مکمل تجزیہ کیا گیا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے ہندو انتہا پسند تنظیمیںہندوستان کو ”بھگوا ”رنگ میں رنگنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ سنگھ پریوار کی اہم تنظیمیں آر ایس ایس، وشواہندو پریشد، بجرنگ دل اور بی جے پی میں کل دس لاکھ سے زائد اہلکار ہیں۔ بھارتی اور بین الاقوامی کمیٹیاں ، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹیاں، بین الاقوامی حقوق انسانی اور حکومت امریکہ کے مختلف محکمہ جات کی طرف سے کی گئی مطالعاتی رپورٹ اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ جیسے جیسے ہندو قومیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ویسے ویسے مسلمانوں، عیسائیوں و دیگر اقلیتوں اورسنگھ پریوار مخالفین کے خلاف تفریق و تعصب، بائیکاٹ اور جنسی ظلم و ستم میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں سے منسلک ادارے اپنے آپ کو غیر نفع بخش ادارے ظاہر کر کے ٹیکس سے رعایت حاصل کرتے ہیں اور یہ رقومات بھارت میں ہندو انتہا پسند تنظیموں کودی جاتی ہیں۔ہندو سونگ سیوک سنگھ، وشواہندو پریشد آف امریکہ، سیوا انٹرنیشنل یوایس اے، ایکل ودیالیہ فائونڈیشن امریکہ میںمتحرک ادارے ہیں جو بھارتی ہندو انتہا پسند تنظیموں کا حصہ ہیں اور وہاں خیراتی اداروں کے نام پر رقوم اکٹھی کرتی ہیں۔ اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی یوایس اے نامی ادارہ کو ٹیکس سے رعایت نہیں ہے۔

مگر وہ کافی متحرک اور سرگرم ہے۔ بھارتی شہر حیدر آباد میں نیلور کے مضافاتی علاقہ مولا پیٹ میں ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی کے لیڈر نے پولیس کی مددسے مسجد شہید کر کے آئندہ تین دن میں مندر کی تعمیر کا اعلان کیا ہے۔ مسجد کی شہادت کے دوران قرآن پاک کے نسخوں کی بھی بے حرمتی کی گئی ہے۔ مقامی مسلمان بلدیہ سے اجازت لیکرمسجد تعمیر کر رہے تھے اور یہاں پانچ وقت کی نمازیں اور تراویح باجماعت ادا کر رہے تھے۔مولاپیٹ میں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے اور یہاں نماز کی ادائیگی کیلئے قرب و جوار میں کوئی مسجد نہیں ہے۔

Ramadan

Ramadan

ماہ رمضان المبارک کے آغاز سے یہاں تراویح کا بھی اہتمام کیاجارہا تھا۔ کانگریس کے مقامی لیڈراور سابق رکن اسمبلی انم ویویکانند ریڈی نے مسلمانوں کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے مسجد کی تعمیر کی اجازت دی تھی اور یہ طے پایا تھا کہ بلدیہ اس اراضی کی قیمت مختص کرے گی اور مسجد کی انتظامیہ سے قیمت وصول کرے گی۔ تاہم حالیہ انتخابات میں تلگودیشم پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے بی جے پی نے مقامی حلقہ سے انتخابات میں حصہ لیا جس میں بی جے پی امیدوار کو شکست کھانا پڑی جس پر اپنی شکست کا انتظام لینے کیلئے بی جے پی کے مقامی لیڈر نے پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ زیر تعمیر مسجد کو شہید کر دیا۔

مسجد شہید کرتے وقت پولیس کے ساتھ بی جے پی اور آر ایس ایس کے کئی اہلکار بھی زعفرانی پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ مسجد شہید کرتے وقت مسلمانوں کو اس کی اطلاع نہیں دی گئی۔ مقامی مسلمانوں کی اطلاع پر مجلس اتحادالمسلمین کے رکن اسمبلی سید احمد پاشا قادری نے ضلع سپرنٹنڈنٹ پولیس نیلور سے رابطہ کرکے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ ہندو انتہا پسندوں کے ساتھ ملکر مسجد شہید کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے وزیر اقلیتی امور آندھراپردیش رگھوناتھ ریڈی سے مطالبہ کیاکہ وہ مسجد کی تعمیر دوبارہ کروائیںاور اسے شہید کرنے والے ہندو انتہا پسندوں کے خلاف کاروائی کریں۔ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے رائے سین علاقہ میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے ہیں جس پر پورے شہر میں کرفیو نافذ کر کے مساجد کو تالے لگادیے گئے ہیں۔

فساد ات کے دوران ہندو انتہا پسندوںکی فائرنگ سے سات مسلمان گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوئے ہیں جبکہ درجنوں دوکانیں اور گاڑیاں نذرآتش کر دی گئی ہیں۔ ماہ مبارک میںمساجد کو تالے لگنے پر مسلمان تراویح سمیت تمام نمازوں کی باجماعت ادائیگی سے محروم ہو گئے ہیں اور مسلمانوںپر پریشیانیوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔بھارتی میڈیا کے مطابق ایڈیشنل پولیس اہلکار مکیش ویشہ کا کہنا ہے کہ بھوپال سے رائے سین آتے وقت ایک ہندو اور مسلم نوجوان کے مابین سیٹ پر بیٹھنے کی وجہ سے جھگڑاہوا جس پر ایک نوجوان نے ٹیلیفون کر کے بس اڈے پر موجود دوسرے ساتھیوں کو بلا لیااور دوسرے نوجوان پر سخت تشددکیا۔

بعد ازاں جب یہ لوگ رپورٹ درج کروانے تھانے پہنچے تو وہاں بھی مسلمانوں اور ہندوئوں کے مابین جھگڑا شروع ہو گیا۔ ہندو انتہا پسندوںنے آٹھ دوکانوں میں توڑ پھوڑ کے بعد چھ دوکانوں اور درجنوں گاڑیوںکی توڑ پھوڑ کر کے انہیں نذرآتش کر دیا۔ پولیس کی طرف سے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے بدترین لاٹھی چارج کیا گیا اور آنسو گیس کے گولے پھینکے گئے۔ اس دوران گولیاں لگنے سے جو افراد زخمی ہوئے ۔بھارت میں بوڈو دہشت گردوں کی طرف سے چار مسلم تاجروں کے قتل کے بعد ریاست آسام کے حالات ایک بار پھر سخت خراب ہو گئے ہیں اور انتظامیہ کی جانب سے غیر معینہ مدت تک کیلئے کرفیو نافذ کر کے فوج کو طلب کیا گیاہے۔

قتل ہونے والے مسلم تاجروں کے لواحقین نے ان کی لاشیں دفن کرنے سے انکار کیا ہے اور ریاستی وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ متاثرہ علاقہ کا دورہ کر کے ان کے مسائل جاننے کی کوشش کریں۔ بوڈ و دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے عطاء الرحمن، روح الامین اور صدام علی کے لواحقین اور اہل علاقہ نے شدید احتجاج کیاجس پر پولیس کو انہیں منتشر کرنے کیلئے ہوائی فائرنگ اور لاٹھی چارج کرنا پڑا۔بکسا ضلع میں کرفیو نافذ کر کے فوج کے علاوہ سی آر پی ایف اور پولیس کی بھاری نفری کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ 2012ء میں بھی بوڈو دہشت گردوں سے 100مسلمانوں کو شہید اور ان کے گھربار اور کھیتوں کو آگ لگا کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھا جس پر تیس ہزار سے زائد مسلمانوں کواس علاقہ سے اپنی جانیں بچاتے ہوئے ہجرت کرنا پڑی تھی۔ابھی تک بہت سے مسلمان ایسے ہی جن کی زمینوں پر بوڈو دہشت گردوں کا قبضہ ہے اور وہ اپنے گھروں کو لوٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر:ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472