”بیچارے گلو بٹ”

Sun

Sun

17 جون کا سورج ن لیگ کے لئے اچھے شگون لے کر طلوع نہیں ہوا تھا۔بظاہر معمول کا دن تھا مگرکیا خبر تھی کہ ن لیگ کے لئے عذاب بن جائے گا اور رانا ثنا اللہ سے کرسی کی مزے واپس ہو جائے گے ۔کیاتمغہ دیں مولاناطاہر القادری کو جنہوں نے مریدوں کو مر مٹنے کا فرمان جاری کردیا۔مریدوں نے پولیس پر تشدد کیا اور پھر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق حکومت پر ہی برس پڑے۔ہماری آزاد میڈیا جس کے کچھ زیادہ ہی پر نکل آئے ہیں ،خوب کوریج دی اور پولیس کو ہی مجرم بنا دیا۔

حکومت پاک افواج کو ضرب غضب آپریشن کے لئے وزیرستان میں اتار چکی تھی تاکہ ملک پاکستان دہشت گردوں سے پاک ہو جائے،مگر یہ کیا اپنے ہی گِراتے ہیں نشمن پر بجلیاںمولانا طاہرالقادری نے سارے پلان کا بیڑہ غرق کردیا۔قادری صاحب کو جنون ہوا اور انقلاب کا الارم الاپنے لگے۔اپنے مریدوں کو حکم صادر فرمادیا کہ مر جائو یا مار دو۔خود کینڈا میں بیٹھے تسبح کے دانے گنتی کرتے رہے۔مریدوں کو پولیس نے روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو پولیس پر ٹوٹ پڑے۔

پولیس پر حملہ آور نہ ہوتے تو کیا کرتے ۔ان کو ٹیلی فونک شہادت کی نوید جو مل چکی تھی۔مجبورا پولیس بھی حرکت میں آگئی۔پھر کیا تصادم ہوا ،کوئی ادھر سے گِرا تو اِدھر سے مرا۔پولیس نے بھی اپنے”ٹاوٹ”گلو بٹ کو اختیارات سونپ دیئے۔گلو بٹ گاڑیوں کے شیشے توڑنے لگے۔گلو بٹ سے یاد آیا۔ایسے گلو بٹ تو ہر جاگیردار،ہر نظام میں مل ہی جاتے ہیں۔اب تو ان کی اتنی افزائش ہو چکی ہے کہ ہر گلی ،محلے میں بآسانی دسیتاب ہو جاتے ہیں۔مگر شیر لاہورکا لقب رکھنے والے یہ گلو بٹ ہیرو بن کر میدان میں آئے تھے مگر پھر عوام نے ہیروسے زیرو بنادیا۔

بھلا ہو ان وکلاء اور لوگوں کا جہنوں نے گلوبٹ سے اُلو بٹ بنادیا۔مجھے تو بیچارے پر بڑا ترس آرہا ہے،اتنی پٹائی تو دشمن بھی نہیں کرتے ،جتنی اپنوں نے کردی۔بیچارے کو مری ہوئی نانی یاد آگئی ہو گی۔بوڑھا شیر چنگھاڑ سکتا ہے کرکچھ نہیں سکتا،بیچارے ہاتھ پائوں تو مارتے رہے مگر بات نہ بن سکی۔

لوگوں نے خاص ٹاوٹ کو ٹاٹ بنا دیا۔مجھے تو گلو بٹ سے اتنی ہی ہمدردی ہے جتنی اپنے آپ سے۔جب بندوق ہی اس کے کندھے پر رکھ کر چلائی گئی تھی تو اس میں اس بیچارے کا کیا قصورتھا؟اس کے تو ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے۔اپنی مرضی سے مکھی تک نہیں مار سکتا۔

ہمارے پاکستان میں ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں گلو بٹ پائے جاتے ہیں۔کچھ اعلیٰ پائے کی نسل سے ہیں اور کچھ ذراکم درجے کے ۔کوئی ٹاوٹ کہلاتا تو کوئی کن ٹوٹٹے۔کن ٹوٹٹوں کو جاگیرداروں کی اور ٹائوٹوں کو سیاستدانوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔سب کے سب آڈر کے محتاج ہوتے ہیں ۔حکم کی عدولی کرتے ہیں تو ان کے بچے بھوکے مرتے ہیں بیچارے اپنے بچوں کو پالنے کے لئے دوسروں کے بچوں کو یتیم کرتے پھرتے ہیں۔حق تلفی،بھتہ خوری،لڑکیوں کی عزتوں سے کھیلنا،معصوم بچوں کے سروں سے سایہ شفقت چھیننا ان کا شیوہ ہے۔کہیں ہنگامے کرنے ہوں،بندے مروانے ہوں ایسے ہی گلو بٹ کو کٹ پتلی بنا کر نچایا جاتا ہے۔مگر مچھ ان کو تماشہ بنا کر خود تماشہ دیکھتے ہیں۔

Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

میرے عزیرو!لاہور میں جتنی بھی گاڑیوں کے شیشے ٹوٹے اس میں گلو بٹ کا کوئی قصور نہیں ہے،نہ ہی اس نے اپنی مرضی سے ڈنڈہ اٹھا یا ،نہ ہی گاڑیوں کے شیشے توڑ سکتا تھا۔پس پردے کے پیچھے کوئی چھپا ہے جو یہ سب کروا رہا ہے۔الزام حکومت پر آرہا ہے،مگر خادم اعلیٰ کو خبر تک نہیں تھی۔خادم اعلیٰ تو خدمت خلق میں ڈٹے ہوئے ہیں ۔یہ اپنوں میں کوئی دشمن ہے جو حکومت کو بوکھلا رہا ہے۔ ضرب غضب سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔

میرے ہم وطنو!چھوڑو،انقلاب کی باتیں،تبدیلی کی باتیں آپ پاک افواج کی سپوڑٹ کریں جو ان دنوں وزیرستان میں جنگ لڑ رہی ہے۔نہ انقلاب آنا ہے نہ ہی آئے گا۔سب ڈرامے بازی ہے۔سبھی اپنی باری کے منتظر ہیں۔

آخر میں ایک سوال یہ کہ اگر لاہور میں پولیس کا قصور تھا تو روالپنڈی ،اسلام آباد میں کون تھاجس نے پولیس والوں کو زخمی کیا۔ڈنڈا بردار نے خوب پولیس والوں کے بازوں توڑے۔تب طاہر القادری جہاز میں مزے سے بیٹھے تماشہ دیکھ رہے تھے۔یہاں اس کے مریدوں نے کیونکر پولیس پر تشد د کیا۔کیا مولاناطاہر القادری جواب دے سکتے ہیں۔

میرے وطن کے معصوم باسیوں چھوڑو انقلاب،انتخاب کی باتیں،یہ صرف خواب ہی ہے۔جو کبھی پورا نہیں ہوگا،حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔کوئی انقلاب نہیں آئے گا۔بس چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے۔حکومت کو اپنا کا م کرنے دیں ،ابھی ایک سال ہی تو ہوا ہے۔ایک سال میں تو بچہ بھی ٹھیک طرح سے اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔حکومت کو کچھ وقت تو دیں۔حکومت بہتر سے بہترین کی طرف گامزن ہے۔

اسے اپنی مدت پوری کرنے دیں۔آپ سبھی نفرتیں،کدواتیں بھول کر ضرب غضب آپریشن کی سپورٹ کریں،تاریخ 1965کو دوہرا رہی ہے۔اب کی بار جنگ اپنوں میں چھپے دشمنوں سے ہے جو نظر بھی نہیں آتے اور ملک کی جڑیںبھی کاٹ رہے ہیں۔وطن کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے۔امن کو واپس لانا ہے۔آئو اس کارخیر میں اپنا حصہ ،اپنا خون شامل کریں۔گلو بٹ،اُلو بٹ بنتے رہیں گے،تماشائی تماشہ کرتے رہے گے۔ہمیں دشمنوں کو زیر کرنا اپنوں کو نہیں،اپنے تو اپنے ہی ہوتے ہیں۔نخرے کرتے رہتے ہیں۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر: مجیداحمد جائی
majeed.ahmed2011@gmail.com