حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات

Government , Taliban Committees

Government , Taliban Committees

حکومت اور طالبان کے درمیان باقاعدہ مذاکرات جاری ہیں پوری دنیا میں پاکستان کے خیراندیش دعا گو ہیں کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں تاکہ کلمہ ٔ طیبہ کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت خداداد میں امن و امان قائم ہو سکے ضیاء دور میں روس جیسی عالمی سپرپاور کا دھڑن تختہ کرتے وقت کسی پاکستانی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے اثرات اتنے بھیانک ہوں گے کہ ہمارا ملک انتہا پسندی کا شکار ہو جائے گا۔ ۔۔کوئی شہر دہشت گردی سے محفوظ نہ رہے گا خودکش حملے، بم دھماکے اورقتل و غارت مسئلہ بن جائے گا حتیٰ کہ تمام مذاہب اور مسلک کی عبادت گاہیں، اولیاء کرام کے مزارات،پبلک مقامات بھی اس انتہا پسندی کی زد میں آجائیں گے۔۔۔ اور تو اور فوجی قافلوںکو نشانہ بنانا، تھانوں پر حملے، GHQ ،نیول ہیڈ کوارٹرپر قبضے اور حساس اداروں کے دفاترپر حملے ہوں گے ان مذموم کاررائیوں نے ہر محب ِ وطن کو ہلاکررکھ دیا بدقسمتی سے یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہورہا ہے جوسلامتی کا مذہب ہے۔۔اب تک امریکہ کی جنگ پاکستان میںلڑی جارہی ہے جس کے نتیجہ میں 50ہزارسے زائد بے گناہ پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔۔

۔ایک لاکھ سے زائد معذورہوگئے ۔۔۔کھربوںکی پراپرٹی تباہ کردی گئی اور پاکستانی معیشت کو سالانہ کئی ارب ڈالرکا نقصان ہورہا ہے اس کے باوجودامریکہ پاکستان سے خوش نہیں یعنی لو وہ بھی کہہ رہے ہیں بے ننگ و نام ہے یہ جانتا تو نہ لٹاٹا اپنے گھر کو میں اس وقت پاکستانی عجیب مشکل سے دوچار ہیں ایک طرف طالبان امریکہ کا ساتھ دینے کے الزام میں دھماکے کرکے غصہ پاکستانی عوام پر نکال رہے ہیں دوسری طرف امریکہ ڈرون حملے کررہاہے جس سے بلا تمیز بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین کو نشانہ بنایا جارہا ہے دونوں صورتوںمیں مرنے والے پاکستانی ہیں اس جنگ کی سی کیفیت سے نکلنے کیلئے میاںنواز شریف اور عسکری قیادت نے تمام سیاسی پارٹیوں اور مذہبی رہنمائوںکو اعتماد میں لے کر طالبان سے باقاعدہ مذاکرات کا فیصلہ کیا جس کا ہر مکتبہ ٔ فکرنے خیر مقدم کیا ابتدانی پیش رقت کے دوران بھی کئی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے لیکن حکومت اور عسکری قیادت نے زبردست صبرو تحمل اور دانش مندی کا ثبوت دیاجس سے یہ بات طے ہوگئی کہ حکومت مذاکرات میں انتہائی سنجیدہ ہے یہاں ایک بات بڑی اہم ہے کہ حکومت نے طالبان کو تسلیم کرلیا ہے

Maulana Abdul Aziz

Maulana Abdul Aziz

جس کا مطلب ہے کہ طالبان کے کالعدم گروپ بھی مذاکرات میں شامل ہیں جن قومی رہنمائوں کی مشاورت سے مذاکراتی عمل کا آغاز ہوا ان میں سے تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان، جمیعت العلماء اسلام کے مولانا فضل الرحمن اور لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز عملاً مذاکرات سے علیحٰدہ ہو چکے ہیں اس کے باوجود وزیر اعظم میاں نواز شریف نے مذاکراتی کمیٹیوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مکمل با اختیار قرار دیا ہے۔ادھر طالبان نے اپنے 15 مطالبات پیش کردئیے ہیں جن میں سورش زدہ علاقوں سے فوج کی واپسی، قیدیوں کے بدلے ،سابقہ وزیر اعظم سیدیوسف رضا گیلانی کے صا حبزادے موسیٰ گیلانی، سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے مغوی بیٹے شہریار تاثیر، پروفیسر اجمل سمیت کئی ایف سی اور واپڈا اہلکاروں کی رہائی کی مشروط پیش کش کی ہے یعنی ایک ہاتھ دے دوسرے ہاتھ لے والی بات ہے ایک اور شنیدہے کہ طالبان کی طرف سے اسلامی نظام کے نفاذ کی خبریں زیر بحث آنے پر مختلف مکاتب فکرنے انپے اپنے عقائدکی روشنی میں سفارشات مرتب کرنا شروع کر دی ہیں۔

حالانکہ ملک میں تو پہلے ہی اسلام کے منافی کوئی قانون نہیں بن سکتا پاکستانی آئین کی شکل میںاسلامی قوانین نافذ ہیں بہر حال پوری قوم ان مذاکرات کی کامیابی کیلئے دعا گو ہے لیکن ابھی سے یہ خدشات سر اٹھارہے ہیں کہ طالبان اور حکومت کے مابین مذاکرات ناکام ہو جائیں گے شاید اسی خوف سے عمران خان اور مولانا فضل الرحمن اس عمل میں شامل نہیں ہوئے مذاکرات کامیاب ہوئے تو یقینا ملک میں امن و امان، تعمیر وترقی اورخوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا ناکام ہوئے تو اس کا خمیازہ 18 کروڑ عوام کو بھگتنا یڑے گا جس کا پاکستان ہرگز ہرگز متحمل نہیں ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کچھ عالمی طاقتیں ان مذاکرات کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتیں ان سے ہر فورم پر خبردار رہنے کی انتہائی ضرورت ہے اس کے لئے انتہائی درد مندی اور دانشمندی کے ساتھ ساتھ احتیاط ناگزیر ہے یہ بات بھی پیش نظررکھی جائے کہ بندوق کی نوک پر فیصلے مسلط نہ کئے جائیں ایسے فیصلوں کے اثرات دیرپا نہیں ہوتے۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی