یونانی مہاجر کیمپوں میں کورونا وبا کے پھیلا کے خدشات

Greek Refugee Camps

Greek Refugee Camps

یونان (اصل میڈیا ڈیسک) جہاں یورپی یونین کے ممالک کورونا وائرس کو شکست دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں یونان میں دسیوں ہزار مہاجرین موریہ جیسے پرہجوم کیمپوں میں پھنس گئے ہیں۔ ڈاکٹروں نے وہاں تباہ کن نتائج سے خبردار کیا ہے۔

دیگر انسانوں سے فاصلہ اختیار کرنا اس وقت جانیں بچانے کے لیے اہم ترین اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ موریہ پناہ گزین کیمپ میں پھنسے 20،000 سے زیادہ افراد کے لیے کورونا وائرس سے بچنیکے لیے معاشرتی دوری اختیار کرنا نا ممکن ہے۔

یہ کیمپ، جو اصل میں 3000 افراد کے لیے تیار کیا گیا ہے، پچھلے چار سالوں میں مسلسل پناہگزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بحران سے دوچار ہے۔ مہاجر اور تارکین وطن یہاں انتہائی تنگجگہ میں مفلسی اور کسمپرسی میں رہتے ہیں۔ زیادہ تر افغانستان سے ہی آئے ہیں لیکن شامی اورسب صحارا افریقہ کے لوگ بھی ان میں شامل ہیں۔ سینکڑوں افراد ایک بیت الخلا استعمال کرتیہیں۔ ایک ہزار سے زیادہ ایک ہی پانی کا کنیکشن شیئر کرتے ہیں۔ یہاں بار بار ہاتھ دھونے کا سوالہی پیدا نہیں ہو سکتا۔

ہالینڈ کے ڈاکٹروں نے ایک تحریک #SOSMoria شروع کی ہے، جس میں یورپ بھر سے پانچ ہزارسے زائد ڈاکٹر پہلے ہی شامل ہو چکے ہیں۔ ان ڈاکٹروں کا یہ کہنا ہے کہ موریہ میں مہاجرین کیمپکا حفظان صحت کا نظام ناقص ہے۔ ڈاکٹروں نے مطالبہ کیا ہے کہ یونان میں کیمپ اور دیگر ہجومکے مقامات کو فوری طور پر خالی کرایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے بھی بڑی تباہی سے بچنیکا یہی واحد طریقہ ہے۔

اسٹیون فان ڈیئر فیر اور ساں فان ڈیر کوئژ نے مل کر اس مہم کا آغاز کیا۔ دونوں نے حال ہی میں کیمپ موریہ میں مریضوں کا علاج کیا۔ ایمسٹرڈیم میں بطور جنرل پریکٹیشنر کام کرنے والے فان ڈیرکوئژ مشکل ملازمتوں کے عادی ہیں۔ وہ کانگو میں ڈاکٹرز ویدآٹ بارڈرز کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

وہ اب بھی یونان کے حالات انتہائی خراب محسوس کرتے ہے۔ ان کے مطابق کورونا پھیلنے کے نتائجناقابل فہم ہیں۔ ان کے مطابق، “22،000 افراد صرف چند مربع کلومیٹر کے رقبے پر رہ رہے ہیں،تقریبا ہر شخص انفیکشن کا شکار ہو چکا ہے۔ بہت سے لوگ پہلے ہی بیمار ہیں اور کمزور مدافعتینظام رکھتے ہیں۔ حقیقی خدشہ یہ ہے کہ ہزاروں افراد مر جائیں گے۔

موریہ کے رہائشیوں کی حفاظت کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں ہیں۔ اس جزیرے پر اس وائرس کوپھیلنے سے روکنے کے لیے یونانی حکام نے کیمپ کو سیل کر دیا اور رہائشیوں کو رات کے وقت اسیچھوڑنے کی اجازت نہیں دی ہے۔

کیمپ میں اب تک کسی کورونا کیس کی اطلاع نہیں ملی ہے لیکن مقامی یونانی آبادی میں اس وباکے پھیلنے کی اطلاعات ہیں۔ اسٹیون فان ڈیئر فیر کے مطابق ان کے بہت سے مریض بہت پریشانہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ممکن ہے کہ جیسے ہی انہیں اپنے اندر موجود حقیقی خطرے کا احساسہو جائے ، رہائشی کیمپ چھوڑ کر پورے جزیرے میں پھیل سکتے ہیں اور اس سے مقامی آبادی کومزید خطرات لاحق ہوں گے۔

یورپ میں کورونا وائرس پھیلنے سے بہت پہلے ہی موریہ کی صورتحال ڈرامائی تھی۔ ڈاکٹروں کیتحریک #SOSMoria میں شریک سان وین ڈیر کوژ کے بقول وہ اور کیمپ میں موجود چند دوسریڈاکٹروں کے پاس مریضوں کے لیے مناسب علاج کی سہولیات موجود نہیں۔ اس ماہر امراض نسواںکا کہنا ہے کہ صورتحال سب ہی کے لیے انتہائی مایوس کن ہے۔ اکثر وہ صرف ایمرجنسی مریضوںکو ہی دیکھ پاتیں ہیں۔ انہوں نے کیمپوں میں کھانا پکانے یا ٹھنڈ سے بچنے کے لیے آگ کی لپیٹمیں آکر جلنے والوں کو دیکھا یا پرتشدد جھڑپوں میں زخمی ہونے والوں کی حالت بھی دیکھی اسکے علاوہ موریہ میں بہت سے لوگ ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔

گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے یورپی یونین کے ایک پارلیماںی رکن ایرک مارکورڈ سالوں سیموریہ کی صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونانی جزیروں پر قائم کیمپوں میںحالات منظم ہیں۔ اگر دوسرے مہاجرین کو ترکی عبور کرنے سے روک دیا جائے تو انسانی ہمدردیکی صورتحال کو شعوری طور پر قبول کیا جا سکے گا۔ مارکورڈ کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر وبائیبیماری نے اب تک کچھ نہیں بدلا ہے۔ جنہوں نے عبرت حاصل نہیں کی انہیں اب یہ سمجھنا چاہئیکہ اگر وہ اس حکمت عملی پر عمل پیرا رہے تو واقعی میں بہت ساری ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔

ایرک مارکورڈ کا مشورہ ہے کہ کروز جہاز استعمال کیے جانے چاہییں جو وبائی امراض کی وجہسے لنگر انداز ہیں۔ ان کا استعمال لوگوں کی نقل و حرکت کے علاوہ انہیں قرنطینہ میں ڈالنے کیلیے بھی کیا جا سکتا ہے۔