رمضان قرآن کا مہینہ

Ramadan

Ramadan

رمضان اسلامی مہینے کا نواں مہینہ ہے۔ اس کا نام بھی اسلامی کیلنڈر کے نویں مہینے سے بنا ہے۔ یہ مہینہ اسلام کے سب سے پاک مہینوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسلام کے تمام پیروکاروں کو اس مہینے میں روزہ، نمازفطرہ ادا کرنے کی صلاح دی گئی ہے۔رمضان المبارک کے مہینے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے. ہر حصہ میں دس دس دن آتے ہیں۔ ہر دس دن کے حصے کو عشرہ کہتے ہیں جس کا مطلب عربی میں 10 ہے۔

اس طرح اسی ماہ میں مکمل قرآن پاک کا نزول ہوا، جو اسلام کی پاک کتاب ہے۔قرآن کے دوسرے پارے کی آیت نمبر 183 میں روزہ رکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری بتایا گیا ہے۔ روزہ صرف بھوکے، پیاسے رہنے کا نام نہیں بلکہ غلط کام سے بچنا بھی ہے۔ اس کا مطلب ہمیں ہمارے جسمانی اور ذہنی دونوں کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔قرآن پاک میں اس مبارک مہینے میں کسی طرح کے جھگڑے یا غصے سے نہ صرف منع کیا گیا ہے بلکہ کسی سے گلہ شکوہ ہے تو اس سے معافی مانگ کر معاشرے میں اتحاد قائم کرنے کی صلاح دی گئی ہے۔

اس کے ساتھ ایک طے رقم یا سامان غریبوں میں تقسیم کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔تمام حمد وثناا س خدائے بزرگ و برتر کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں پر احسان عظیم فرمایا اور ان کے لئے فضیلت کے اوقات مقرر کئے تاکہ وہ رمضان المبارک سے اعمال صالح کے گلہائے شگفتہ چنیں اور اپنے لئے خوشبو کا خزانہ جمع کر لیں جو قیامت کے دن کام آسکے اور درود و سلام حضورۖ پر بھیجیں،جنہوں نے رمضان المبارک میں عبادت اور بندگی کی منفرد مثال قائم کی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔

رمضان المبارک وہ مقدس مہینہ ہے جس میں قرآن پاک نازل ہوا جو نبی نوع انسان یعنی لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور روشنی کی راہ پانے کا ایک خاص ذریعہ ہے حق کو باطل سے جدا کرنے کا۔ سوجو کوئی پائے تم میں سے اس مہینے کو تو اس کے روزے رکھے۔ رمضان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ قرآن جو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہدایت ہے حضور اکرم ۖکا سب سے بڑامعجزہ اور امت محمد کے لئے سب سے عظیم نعمت ہے اور قیامت تک آنے والے تما م لوگوں کے لئے ہدایت ہے، وہ رمضان المبارک میں نازل ہوئی اور اسی وجہ سے رمضان کو قرآن کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔ اے ایمان والو! تم پر رمضان المبارک کے روزے فرض کر دئیے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پربھی فرض کئے جا چکے ہیں تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ روزے رکھنے کا حکم ہم نے بلاوجہ ہی نہیں دیا ہے بلکہ اس کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ تم متقی بن جاؤ۔ یہ صرف تمہارے متقی بننے اور جنت میں داخل ہونے کے لئے ایک بہترین طریقہ ہے اور اس سے گریز کرنا ایسا ہی ہے جیسے متقی بننے اور جنت میں داخل ہونے سے انکار کرنا۔ کیا تم مومن ہو کر یہ گوارہ کرو گے؟ تمہیں تو یہ چاہئے کہ جنت کے حصول کے لئے زیادہ سے زیادہ پرہیزگار بننے کی جد وجہد کرو۔

رسول اللہ ۖ رمضان المبارک سے بہت محبت فرماتے تھے اور اس کے پانے کی دعا کرتے تھے۔ آپ اس مقدس ماہ کا استقبال ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ کرتے تھے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی حضور کے معمولات۔ عبادت و ریاضت میں عام دنوں کی نسبت بہت اضافہ ہو جاتا تھا۔ حضورۖ رمضان کا چاند دیکھتے تو فرماتے یہ چاند خیر و برکت کا ہے۔ میں اس ذات پر یقین رکھتا ہوں جس نے مجھے پیدا فرمایا۔ حضور ۖ روزے کا آغاز سحری کھانے سے فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے امت کو تلقین فرمائی کی سحری ضرور کھایا کرو۔ خواہ وہ پانی کاایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ نے ارشاد فرمایا: سحری سراپا برکت ہے۔ اسے ترک نہ کرو۔ آپ نے فرمایا سحری کرنیوالے پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی روزہ افطارکرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے۔ کیونکہ اس میںبرکت ہے اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے کرے کیونکہ پانی پاک ہے۔

Allah

Allah

سحری کھانے میں تاخیر اور افطار کرنے میں جلدی کرنا حضور کا زندگی بھر معمول رہا۔ روزہ رضائے حق حاصل کرنے کا ذریعہ اور مسلمانوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کا وسیلہ نفسانی حواہشات پر قابو پانے اور اپنے آپ کو منکرات سے بچانے کا اہم ذریعہ ہے۔ روزہ گناہوں کے لئے ڈھال ہے۔ روزہ دار کو چاہئے کہ وہ گناہ کاکام نہ کرے۔ روزہ کا مقصد قرآن پاک نے تقویٰ کو قرار دیا ہے اور تقویٰ بری باتوں اور برے کاموں سے بچنے ، اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے اور اللہ کا خوف اپنے اندر پیدا کرنے کو کہتے ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

لوگو جو ایمان لائے ہو اور اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا سامان کیا ہے۔ یقینا اللہ تمہارے ان سب اعمال سے باخبر ہے۔ایسے روزے دار بہت ہیںجن کے بارے میں رسول اللہ ۖ ارشاد فرماتے ہیں کہ بہت سے روزہ دار ایسے جن کو روزے کے نام پر صرف بھوک پیاس ملتی ہے اور بہت سے رات کو نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جن کو قیام لیل کے نام پر رات کا جاگنا ہی ملتا ہے۔ یہ لوگ روزہ تو رکھتے ہیں مگر روزے کے روحانی اور اخلاقی تقاضے پورے نہیں کرتے۔ زبان کو دوسروں کی غیبت سے، برائی سے اور بد گوئی سے محفوظ نہیں رکھتے۔ دوسروں کی حق تلفی سے، ایذاد رسانی سے، جھگڑ نے اور لڑائی سے باز نہیں آتے۔ غرض ایسے لوگوں کو روزہ سے نہ خود فائدہ ہوگا اور نہ اللہ کو اس کے روزہ کی ضرورت ہے۔

رمضان وہ ماہ مقدس ہے جس میں نیکیوں کی فصل اگتی ہے اور پھر لہلہاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ بے شک روزہ خالص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوںگا کہ بندہ میری ہی خاطر اپنا کھانا پینا اور اپنی خواہش نفس سب کچھ چھوڑ دیتا ہے۔ نیز فرمایا روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں۔ ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ اور بے شک روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ اچھی اور پاکیزہ ہے۔ الغرض رمضان قرآن کامہینہ ہے ، رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے اوراللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ہر مومن کواپنے گیارہ مہینوں کامحاسبہ کرناچاہئے اور اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دوسرے مشاغل سے فارغ ہو کر یادباری تعالیٰ میں لگانا چاہئے۔ اللہ ہم سب کو روزہ کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

M A Tabassum

M A Tabassum

تحریر:ایم اے تبسم (لاہور)