افتخار چوہدری نے مسند انصاف کی حرمت برقرار رکھنے کیلئے ہر صعوبت اٹھانے کا عزم

دنیا میں کسی کو بھی دوام نہیں اور نہ ہی کوئی چیز ابدی وجود کی حامل ہے لیکن انسان کا کردار ‘ عزم ‘ حوصلہ ‘ افعال اور جدوجہد اسے تاریخ کے ابواب میں سنہری حروف میں سجادے تو پھر اس انسان کو رہتی دنیا تک یاد کئے جانے کا یقین اَمر ہونے کے احساس کی لذت سے آشنائی عطا کرتا ہے مگر یہ آشنائی جسموں پر حکومت کے ذریعے کبھی حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کیلئے تخت و تاج ٹھکرانے اور پڑتے ہیں اور فقیری اپناکر حق کیلئے میدان کارزار میں اترنا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج حکومت و تخت اور فوج طاقت کا مالک یزید ملعون مطعون ہے اور فقر کی راہ پر حق کی جدو جہد میں سر کٹادینے والا حسین رہتی دنیا تک اَمر قابل احترام و تقلید او ر باعث حوصلہ و استقامت ہے۔

جسموں اور دلوں پر حکمرانی میں یہی فرق ہوتا ہے کہ جسم پر حکمرانی طاقت کے سہارے ہوتی ہے جو مشرف نے کرنی چاہی اور دلوں پر حکمرانی رب کی عطا ہے رب جسے چاہتا ہے اس حکمرانی کا حوصلہ عطا کرتا ہے اور پھر اس حوصلے کے سہارے راہ کی تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرکے کسی عظیم مقصد کی جانب بڑھنے والا جب منزل پر پہنچتا ہے تو حقیقتاً دیدہ ¿ و دل اس کیلئے فرش راہ ہوتے ہیں اور انصاف و عدلیہ کے ساتھ آئین و حقوق عوام کے تحفظ کیلئے افتخار محمد چوہدری نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات و خواہشات کے سامنے سر جھکانے سے انکار کرکے اس حوصلے کا ثبوت دیا جو رب نے انہیں بخشا اور مشرف کی ریاستی قوت کے سامنے سینہ سپر ہوکراپنے اس عظیم مقصد سے خلوص کے ثبوت نے انہیں وہ کامیابی و اعزاز عطا کیا کہ وہ پاکستان میں آزاد و غیر جانبدار عدلیہ کے بانی کہلائے اور انصاف و قانون سے لیکر ہر شعبہ زندگی کے عوام و خواص میں مقبویت و پذیرائی کے حامل ٹہرے۔ مگر افتخار چوہدری نے یہیںسفر کو محدود کرکے مسند انصاف کو اپنا مطلب ومقصود ثابت کرنے کی بجائے انصاف کی حقیقی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے جوطویل‘ صبر آزم اور اعصاب شکن جنگ لڑی اس نے ثابت کیا کہ ان کے وہ تمام ناقدین غلط تھے جو انہیں عہدے کا طالب جانتے اور مانتے تھے افتخار چوہدری نے حکومتی کرپشن ‘ عوامی مفادات کے خلاف فیصلوں اور ازخود نوٹسز کے ذریعے ثابت کردیا کہ وہ پاکستان میں عدل و انصاف کی روایت کے قیام کے متمنی ہیں اور یقینا جو ورثہ وہ عوام کے ساتھ مل کر آزاد کرائی جانے والی عدلیہ کے سپرد کرکے جارہے ہیںعدلیہ کی رہبری ورہنمائی کرتے ہوئے اسے اصطراب و لغزش سے محفوظ رکھے گا اور نئے چیف جسٹس تصدق جیلانی سمیت ان کی رہبری میںکام کرنے والی پوری کی پوری عدلیہ تحفظ آئین و قانون کے ساتھ عوامی حقوق کے تحفظ اور فراہمی انصاف کی افتخار محمد چوہدری کی تربیت کا حق ادا کرتے ہوئے اس روایت کو آگے بڑھائے گی اور پاکستان میں انشاءاللہ وہ عدل و انصاف کا وہ معاشرہ قائم ہوجائے گا جس کاتمنا وتحفظ میں افتخار محمد چوہدری نے آمر وقت کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا اور عوا م نے افتخار محمد چوہدری کا بھرپور ساتھ دیا لیکن وقت تنگ پڑگیا اور افتخار محمد چوہدری کی مدت ملازمت کااختتام ہوا مگر ہمیں یقین ہے کہ افتخار محمد چوہدری چونکہ کسی شخصیت نہیں بلکہ ایک عزم کا نام ہے اور یہ عزم موجود رہے گا اور عدلیہ افتخار محمد چوہدری کے بعد بھی ان کی دکھائی گئی سمت انہی کی جلائی گئی شمع کی روشنی میں اپنا سفر جاری رکھے گی ۔

مسند انصاف کی حرمت برقرار رکھنے کیلئے ہر صعوبت اٹھانے کا عزم وحوصلہ لیکر آمر و حاکم وقت کے سامنے بیعت یزیدی سے انکار کے حسینی کردار کی تقلید کے ذریعے قانون کو بالادستی اور عوام کو سر بلندی عطا کرنے والے پاکستان کے اٹھارھویں منصف اعلیٰ ( چیف جسٹس ) پاکستان افتخار محمد چوہدری 12 دسمبر 1948ءکو بلوچستان میں پیداہوئے ۔بزدلی اور رشوت خوری سے نفرت کرنے والے فاضل فنیات او ر فاضل قانون افتخار محمد چوہدری 1976ءمیں لاہور عدالت عالیہ کے وکیل اور 1985ءمیں عدالت عظمٰی کے وکیل بنے۔ 1989ءمیں انہیں بلوچستان کیلیے وکیل جامِع متعین کیا گیا جہاں سے بعد میں ترقی کر کے چیف جسٹس بلوچستان بن گئے۔ اس عہدے پر 6 نومبر، 1990ءسے 21 اپریل، 1999ءتک متعین رہے۔ اپنی خدمات اور تجربے کی بنیاد پر 4 فروری، 2000ءکو انہیں عدالت عظمٰی میں ترقی دے دی گئی۔ 30 جون، 2005ءکو جنرل پرویز مشرف نے منصف اعظم پاکستان نامزد کیااور رخصت ہونے والے منصف اعظم ناظم حسین صدیقی کے بعد چیف جسٹس کا حلف اٹھاکر افتخار چوہدری پاکستان کے اٹھارھویں چیف جسٹس بن گئے اور بلوچستا ن سے تعلق رکھنے والے پہلے چیف جسٹس کا اعزاز بھی ان کے حصے میںآیا اور انہوں نے 2013ءتک منصف اعلیٰ کی حیثیت سے انصاف کی فراہمی و آئین کے تحفظ کی ذمہ داری سنبھال لی مگر عدالت عالیہ سے مشرف کے آمرانہ اقدامات کے توثیق نہ کئے جانے پر خفا پرویز مشرف نے 9 مارچ، 2007ء، جمعہ کے دن، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو صدر جنرل پرویز مشرف نے اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کے تحت معطل کر کے ان خلاف کے سپریم کورٹ میں ریفرنس داخل کر دیااور اعلان کیا کہ ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کا ٹرائیل خفیہ ہوگا مگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ مقدمہ کھلی عدالت میں چلایا جائے تاکہ عوام کو حقیقت کا پتہ چل سکے۔
جمعہ 20 جولائی کو 41 دن کی سماعت کے بعد منصف خلیل الرّحمن رمدے نے شام چار بجے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے جناب افتخار چودھری کو اپنے عہدے پر بحال کر دیا، اور یہ بحالی 9 مارچ 2007ء سے سمجھی جائے گی (جس دن انھیں “معطل” کیا گیا تھا)۔ متفقہ فیصلہ میں عدالت نے صدر کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا۔ ریفرنس کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ 10 کے مقابلے میں 3 کی اکثریت سے دیا گیا۔

3 نومبر 2007ءکو پرویز مشرف ایمرجنسی نافذ کردی اور آئین کی معطلی کردیا گیا مگر افتخار چودھری کی سربراہی میں سات رکنی عدالتی بنچ نے ہنگامی حالت کے نفاذ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا اور فوج اور انتظامیہ کو حکم دیا کہ آمر کے غیر قانونی حکم کی تعمیل نہ کی جائے مگر ججوںکو ظر بند کردیا گیا مگر افتخار چوہدری نے حکومتی اقدامات کو غیرآئینی قراردیتے ہوئے وکلاءسے قانون کی بالادستی کیلئے جدوجہد کی اپیل کی اور پھر پاکستان میں وکلا¿ کی شروع کردیا تحریک ‘ میڈیا کے بھرے ہوئے رنگوں اور عوام کی شمولیت سے انقلاب کی بنیاد بن گئی اور

2008ءکے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 24 مارچ 2008 کو عدلیہ کے زیر حراست ججوں کی رہائی کا اعلان کیا لیکن انہوں نے افتخار محمد چوہدری کو اپنے عہدے پر بحال نہیں کیاجس کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور زرداری نواز اتحاد اپنے اختتام کو پہنچا ۔

عدلیہ کی عدم بحالی پر وکلاءتنظیموں نے 12 تا 16 مارچ 2009 کو عدلیہ کی بحالی کے لئے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد تک “لانگ مارچ” کرنے کا اعلان کیا جس کی سربراہی وکلاءرہنماءاور نواز شریف کر رہے تھے۔ حکومت پاکستان نے ججوں کی بحالی سے انکار کرتے ہوئے چار میں سے تین صوبوں میں دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا جس کے تحت “لانگ مارچ” کے لئے جمع ہونا ممنوع قرار پایا۔ اسی طرح مختلف شہراوں کو بند کر دیا گیا تاکہ وکلاءوفاقی دار الحکومت تک نہ پہنچ پائیں۔ نیز بعض وکیل رہنماء، سیاسی تنظیموں کے کچھ کارکن اور سول سوسائٹی کے بعض افراد کو زیر حراست لے لیا گیا۔ ان کوششوں کے باوجود لانگ مارچ کے شرکائ تمام رکاوٹوں کو عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے اور16 مارچ کی صبح و رزیر اعظم پاکستان نے اعلان کیا کہ افتخار محمد چودھری 21 مارچ سے منصف اعظم کے عہدے پر بجال ہو جائیں گے۔ ان کے ساتھ دوسرے منصفین بھی بحال ہوں گے جس کے ساتھ ہی لانگ مارچ ختم کر دیا گیااور21 مارچ 2009ءکو نصف شب افتخار چودھری تیسری مرتبہ منصف اعظم کی کرسی پر برجمان ہوئے۔

مسند انصاف پر ایکبار پھر جلوہ افروز ہونے کے بعد چیف جسٹس افتخار چوہدری نے آئین و عوامی حقوق کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کی عوامی توقعات پر پورا اترنے کیلئے عزم صمیم کے ساتھ جرا¿تمندانہ کردار کی ادائیگی شروع کردی مگر ان کے بیٹے ارسلان افتخار کے کردار و حرکات کے حوالے سے سامنے آنے والے شواہد ‘ تعمیراتی گروپس سے ارسلان کے تعلقات و معاہدات اور تعمیراتی گروپ کے سیٹھ امجد سے اپنی بیٹی کی منگنی نے افتخار چوہدری کی ساکھ کو نقصان پہنچایا کیونکہ سیٹھ امجد کے مالی بے قاعدگی کے مقدمات میں منصف کا کردار چیف جسٹس افتخار چوہدری کے پاس تھا ۔اسکے علاوہ پاکستان کے عام انتخابات 2013ءمیں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات سے انکار اور کئی ضروری مقدمات کو التوا¿ کے ذریعے فیصلوں سے محروم رکھنے کا الزام بھی چیف جسٹس افتخار چوہدری پر لگایا جاتا ہے ۔
الزامات اور شکوک و شبہات سے قطع نظر آئین و عوامی حقوق کے تحفظ اور فراہمی انصاف کے حوالے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی خدمات کا ہمیشہ ہر سطح پر اعتراف کیا جاتا رہا ہے اور عوام کی جانب سے ازحد احترام و اعتماد کے علاوہ امریکا سے جاری ہونے والے دی نیشنل لاءجرنل نے چیف جسٹس کو لائیر آف دا ایئر دوہزار سات کے ایوارڈ سے نوازا۔10 مئی 2008ءکو قانون کی حکمرانی قائم کرنے پر دی نوا ساو¿تھ ایسٹرن یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف لاءکی اعزازی ڈگری دی۔ 17 نومبردوہزار آٹھ کو دی ایسوسی ایشن آف دی بار آف سٹی آف نیویارک نے انہیں عدلیہ اور وکلاءکی آزادی کا نشان قرار دیتے ہوئے ایسوسی ایشن کی اعزازی ممبر شپ سے نوازا۔ 19 نومبر2008ءکو انہیں عدلیہ کی آزادی میں ثابت قدم رہنے پر ہارورڈ لاءاسکول نے میڈل آف فریڈم دیا۔ افتخار محمد چوہدری پہلے پاکستانی اور تیسرے انسان ہیں جنہیں میڈل آف فریڈم سے نوازا گیا۔ افتخار محمد چوہدری سے پہلے یہ ایوارڈ نیلسن مینڈیلا اور چارلس ایملٹن ہاسٹن کو دیا گیا ہے۔28 مئی2012ءکو افتخار محمد چوہدی کو برطانیہ کی سپریم کورٹ کے صدر لارڈ فلپس نے انٹرنیشنل جسٹس ایوارڈ2012ءپیش کیا۔ جسٹس افتخار کو انٹرنیشنل جسٹس ایوارڈ انٹرنیشنل جیورسٹ کونسل کی جانب سے پاکستان میں تمام تر مشکلات کے باوجود عدلیہ کی سربلندی قائم رکھنے پر پیش کیا گیا۔ بھارتی تنظیم پیٹا نے انہیں پاکستان کے صوبہ پنجاب میں مہلک پتنگ کے مانجھے پر پابندی لگانے پر ہیرو ٹو اینیمل ایوارڈ سے نوازا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مارچ 2009ءمیں بحالی کے بعد جب دوبارہ منصب سنبھالا تو بدعنوانی اوربنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر از خود نوٹس لے کر جتنے فیصلے سنائے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ عدلیہ کی آزادی کے بعد سپریم کورٹ کے کردار میں واضح تبدیلی آئی۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے از خود نوٹس لے کر حکومتی اداروں میں کرپشن پر خوب چیک رکھا۔ صرف متنازع رینٹل پاور پراجیکٹس پر سو موٹو سے کئی ارب روپے قومی خزانے میں واپس آئے۔ چیف جسٹس پاکستان نے این آئی سی ایل اور ای او بی آئی کے لیے اراضی کی خریداری میں مالی بے ضابطگیوں، حج انتظامات میں بد انتظامی اور کرپشن کا بھی از خود نوٹس لیا۔ ان کے سو موٹو پر ہی سی ڈی اے نے عدالتی حکم پر اربوں روپے مالیت کی ہزاروں کنال قیمتی اراضی قبضہ مافیا سے واگزار کرائی۔

چیف جسٹس پاکستان از خود نوٹس کے اختیار کا استعمال کر کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے حقیقی محافظ کے طور پر سامنے آئے۔ لوگوں کا اعلیٰ عدلیہ پر اس حد تک اعتماد بحال ہوا کہ سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل کو روزانہ موصول ہونے والی درخواستوں کی تعداد ڈھائی سو تک پہنچ گئی۔

شاہ زیب کے قتل پر از خود نوٹس لے کر چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے طاقتور ملزموں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ نہتے سرفراز شاہ کے رینجر اہلکار کے ہاتھوں قتل پر بھی سو موٹو لیا گیا۔ حکومت کچھ نہ کر سکی تو بلوچستان میں بد امنی، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور لاپتہ افراد کے معاملے پر بھی چیف جسٹس نے از خود نوٹسز لئے اور اہم فیصلے سنائے۔ انتخابی عمل کے دوران پریذائیڈنگ افسر کو تھپڑ رسید کرنے پر وحیدہ شاہ کو چیف جسٹس کے سوموٹو پر ہی نااہلی کا سامنا کرنا پڑا۔ اداکارہ عتیقہ اوڈھو سے ایئرپورٹ پر شراب کی برآمدگی سے لے کر اپنے بیٹے ارسلان افتخار پر کرپشن کے الزامات تک کئی طاقت ور اور اہم شخصیات چیف جسٹس کے از خود نوٹسز کی زد میں آئیں۔پاکستان نے اپنی تاریخ میں پہلی بار آزاد عدلیہ کا مزہ چکھا۔آئینی و قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عوامی حقوق کے تحفظ اور آئین و قانون کی بالادستی کے لیے جس طرح دن رات کام کیا ، وہ آنے والے چیف جسٹس صاحبان کے لیے مشعل راہ ہو گا۔

افتخار چوہدری نے عدلیہ کو اپنے کردار اور فتح سے جو حوصلہ و استقامت اور اپنے ایکشن و فیصلوں کے ذریعے جو تربیت دی ہے وہ اس بات کی نشاندہی کررہی ہے کہ اب ہمارا سفر تادیر درست اور روشن سمت میں جاری رے گا اور اگر ہم مزید کسی طالع آزما کی مہم جوئی کا نشانہ نہ بنے تو جلد ترقی و استحکام کی اس منزل پر پہنچ جائیں گے جہاں پر امن و منصفانہ معاشرہ ترقی و خوشحالی کی نوید لئے ہمارا منتظر ہے لیکن اس امید کے ساتھ ایک خوف بھی ہے کیونکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ و رخصتی کے ساتھ ہی نہ صرف سپریم کورٹ سے بلوچستان کی نمائندگی کا خاتمہ ہوجائے گا بلکہ چیف جسٹس پاکستان کی ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کے عرصے میں سات جج صاحبان ریٹائر ہوجائیں گے جبکہ تین جج صاحبان جسٹس تصدق حسین جیلانی، جسٹس ناصرالملک اور جسٹس جواد ایس خواجہ چیف جسٹس پاکستان کے عہدے پر فرائض انجام دینے کے بعد ریٹائر ہوں گے۔

جسٹس خلجی عارف حسین 12اپریل2014ءکو ، نئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی 5 جولائی2014ءکو اور جسٹس محمد اطہر سعید 28 ستمبر 2014ءکو ریٹائر ہوں گے۔
جسٹس ناصرالملک 16 اگست 2015ء، جسٹس جواد ایس خواجہ 9ستمبر2015ءکو ،جسٹس سرمد جلال عثمانی 14 اکتوبر2015ءکو اور جسٹس اعجاز احمد چوہدری 14 دسمبر 2015ءکوریٹائر ہوجائیں گے۔
جسٹس انور ظہیر جمالی 30دسمبر2016ءکوریٹائر ہوجائیں گے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم31 مارچ2017ءکو ریٹائر ہوجائیں گے۔ جسٹس اعجاز افضل خان 7 مئی 2018ءکو ریٹائر ہونگے۔2019 جسٹس میاں ثاقب نثار 17 جنوری 2019ءکو، جسٹس شیخ عظمت سعید 27 اگست 2019ءکو ، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ 20دسمبر2019ءکو ریٹائر ہوجائیں گے۔
اس طرح 7سال بعد سن 2020ءوہ سال ہوگا جس میں سپریم کورٹ کاکوئی جج ریٹائر نہیں ہوگا۔2021ءمیں جسٹس اقبال حمید الرحمان اور جسٹس مشیر عالم 17 اگست 2021ءکو ریٹائر ہوجائیں گے۔2022ءمیں جسٹس گلزار احمد یکم فروری 2022ءکو ریٹائر ہوجائیں گے۔

قومی و عالمی ایوارڈاور انصاف و آئین کے تحفظ کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ جسٹس افتخار چوہدری پر قانون دانوں کے بین الاقوامی کمیشن (انٹرنیشنل کمیشن فار جیورسٹس)نے الزام لگایا ہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بطور چیف جسٹس آف پاکستان کے آٹھ سالہ دورمیں متعدد اہم فیصلے تو ضرور کئے گئے لیکن اس عرصے کے دوران آئین کے تحت سپریم کورٹ کو دئیے جانے والے اختیارات یعنی از خود نوٹس لینے کا بھی بہت زیادہ استعمال کیا گیا جس میں بعض معاملات میں شفافیت پر سوالات بھی ا±ٹھ رہے ہیں۔
اسی بارے میںرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متعدد واقعات سے متعلق از خود نوٹس لینے سے متعلق بعض اوقات شفافیت کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور بعض اوقات تو یہ از خود نوٹس مختلف اداروں کے درمیان اختلافات کا بھی باعث بن سکتے تھے۔آئی سی جے نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اگر از خود نوٹس سے متعلق سپریم کورٹ کو دیئے جانے والے اختیارات کا استعمال زیادہ کیا گیا تو اس کے کچھ نادانستہ نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں جن سے قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔

ساڑھے آٹھ برس، پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کا سب سے بڑا جج رہنے کے بعد جسٹس افتخار محمد چوہدری رخصتی ہوچکے ہیں اب ان کے نام کے ساتھ بھی ”ر“ کا لاحقہ لگ جائے گا۔ یہ پاکستان کے آئین و قانون کا تقاضا ہے۔ بے شک انتظار کرنا ہوگا کہ تاریخ کی عدالت عظمیٰ ان کے بارے میں کیا حتمی فیصلہ صادر کرتی ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں میں ان کا نام حسین یاد کی طرح مہکتا رہے گا۔ کون بھلا پائے گا کہ انہوں نے وقت کے طاقتور ترین ڈکٹیٹر کے سامنے حرف انکار کی جرا¿ت کی ۔ اس حرف انکار کے افق سے ایک شفق پھوٹی۔ ایک ایسی پرعزم تحریک نے جنم لیا جس میں معاشرے کے سبھی طبقات نے اپنا حصہ ڈالاعدلیہ بحالی کی تحریک ، جمہوریت بحالی کی تحریک بن گئی اور بالآخر مطلع تاریخ سے وہ دن طلوع ہوا، جب نہ خود پرست ڈکٹیٹر رہا، نہ اس کی لے پالک عدلیہ باقی بچی ۔
جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عدلیہ کو ایک نیا رنگ و آہنگ دیا۔ ان کی بحالی کے بعد عہد نو کا آغاز ہوا اہل جبر اور زورآور طبقات ان کی فعالیت کا خصوصی ہدف بننے۔ ہمیشہ قانون کی گرفت سے دور رہنے والے وہ چہرے بھی عدالتی کٹہروں میں دکھائی دینے لگے جنہوں نے صدیوں سے ”استثنیٰ“ کی بکل ماری ہوئی تھی۔ چیف جسٹس کا یہ جری کردار، بالعموم عدالتی مزاح کا حصہ بنتا گیا۔ یہ تاثر زائل ہوگیا کہ ہماری عدلیہ ہمیشہ انتظامیہ کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی رہی ہے۔ کون تصور کرسکتا تھا کہ کوئی وزیراعظم بھی توہین عدالت کا مرتکب ہو کر گھر جاسکتا ہے۔ جسٹس چوہدری نے انتظامیہ کو نکیل ڈالنے کے باوجود جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بنایا۔ ہمیشہ کے لئے طے کردیا کہ آئندہ کسی غیرآئینی بندوبست کے تحت ، پی سی او کا حلف اٹھانے والا جج، اپنے منصب پر براجمان نہیں رہے گا۔ بستیوں کو امن آشنا کرنے، لاپتہ افراد کی بازیابی ، انتظامیہ کی خودسری کا پھن کچلنے اور عدلیہ کے رعب و دبدبہ میں اضافہ کرنے کے لئے جسٹس افتخار محمد چوہدری کے کردار کو کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔ ان کی بے مثل جدوجہد عالمی اعزازات کی مستحق بھی ٹھہری اور اہل وطن کی بے کراں محبتوں کی حق دار بھی۔جسٹس افتخار محمد چوہدری، ایک فرد کے بجائے ایک علامت اور ایک استعارہ بن چکے ہیں۔ انہوں نے بہرحال قومی تاریخ پر ایک گہرا نقش چھوڑا ہے۔