آئی جی پنجاب خان بیگ کے نام

District Chakwal

District Chakwal

ضلع چکوال میں جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے۔آئے روز ڈکیتی ،چوری کی وارداتیں ہوتی ہیں ۔پولیس و انتظامیہ ہے کہ لمبی تان کر سو رہی ہے۔ ضلع چکوال میں گیارہ تھانے جبکہ پانچ پولیس چوکیاں ہیں ٹوٹل سیٹیں 1185 جبکہ موجودہ نفری 1125 ہے، ہیڈ کانسٹبل اور کانسٹبل کے پاس تفتیش کا کوئی اختیار نہیں،ضلع چکوال میں 74 بینک،14 بڑی فیکٹریاں، 2827مساجد، 221 امام بارگاہیں، 86 دینی مدارس، 70 پٹرول پمپ و دیگر حساس مقامات کے لئے پولیس کی نفری انتہائی ناکافی ہے ضلع چکوال میںگیارہ تھانے سٹی چکوال،صدر چکوال، کلرکہار، ڈھڈیال، نیلہ، چوآسیدن شاہ، ڈوہمن، سٹی تلہ گنگ ، صدر تلہ گنگ، ٹمن، لاوہ جبکہ پانچ پولیس چوکیاں بشارت، ملہال مغلاں، میال، بلکسر، بوچھال اور پانچ پٹرولنگ پوسٹ: ڈھوک پٹھان، بھون، ملہال مغلاں، بھون، دلیل پور ہیں ضلع چکوال میں پولیس کی ٹوٹل نفری 1185 ہے۔

مگر اس وقت 1125 پولیس اہلکار ضلع بھر میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں 60 کے قریب سیٹوں پر کوئی تعیناتی نہیں۔ 1185 کی نفری میں 903 کانسٹبل، 116 ہیڈ کانسٹبل،67 اے ایس آئی،62 سب انسپکٹر، 23 انسپکٹر،ڈی ایس پی اور ڈ ی پی او چکوال شامل ہیں ۔ضلع چکوال میں لیڈیز پولیس میںسب انسپکٹر اور ہیڈ کانسٹبل ایک ایک جبکہ 19 کانسٹبل جبکہ ایلیٹ فورس کے75اہلکار بھی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ کسی بھی ہیڈ کانسٹبل اور کانسٹبل کے پاس تفتیش کا کوئی اختیار نہیں،67 سب انسپکٹر میں سے صرف 13 کو، 54 سب انسپکٹر میں سے صرف 8 کو، 23 انسپکٹر میں سے صرف 4 کواور ڈی ایس پی،ایس پی کو تفتیش کا اختیار دیا گیا ہے۔

ضلع چکوال میںایک اندازے کے مطابق 74 بینک، 14 بڑی فیکٹریاں،2827 مساجد، 221 امام بارگاہیں، 86 دینی مدارس، 70 پٹرول پمپ ہیں اسکے علاوہ سرکاری دفاتر سمیت دیگر کئی حساس مقامات بھی ہیں۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق ضلع چکوال کی آبادی 10 لاکھ 83 ہزار سات سو پچیس تھی جو اب کئی گنا بڑھ چکی ہے اتنی بڑی آبادی کے لیے پولیس کی اتنی نفری انتہائی کم ہے ۔ایک طرف تمام تھانے نفری کی کمی کا شکار ہیں تو دوسری جانب جب کوئی واردات ہوتی ہے تو پولیس ہمشہ کی طرح لیٹ پہنچتی ہے۔تلہ گنگ کے علاقے تھانہ ٹمن کی حدود ملتان خورد تاپچنند و خوشحال گڑھ ایک ایسا گروہ سرگرم ہے جو موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتیں کر رہا ہے ۔دیدہ دلیری کے ساتھ مغرب کے بعد خوشحال گڑھ تا ملتان خورد رات نو بجے کے بعد راستہ غیر محفوظ ہو چکا ہے۔

مسلح موٹر سائیکل ملزمان آنے جانے والوں سے سب کچھ چھین لیتے ہیں ۔صرف تین روز میں چھ مو ٹرسا ئیکل ،تیر ہ مو با ئلز اور تقر یبا ڈیڑ ھ لا کھ روپے سے لو گو ں کو محر وم کر دیا گیا ،جس جگہ وارداتیں کی جاتی ہیں وہ تین سے چار کلومیٹر کا علاقہ ہے اور جب کوئی واردات ہوتی ہے تو اس جبگہ پولیس کو پہنچتے پہنچتے کم ازکم ایک گھنٹہ لگتا ہے ۔تب تک ملزمان رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ تھانہ ٹمن کی پولیس نے ایک سرکاری ملازم کی رہائش سے موٹر سائیکل چھیننے والے گینگ کے سرغنہ آصف سکنہ ٹمن کو کوٹگلہ سے گرفتار کیا جبکہ اسکے دیگر ساتھی بھی گرفتار ہوئے یقینا پولیس کی یہ بڑی کامیابی ہے لیکن اس سے بڑھ کر ناکامی یہ ہے کہ ٹمن کے رہائشی اس گینگ کے سرغنہ کو کوٹگلہ میں ایک سرکاری ملازم نے پناہ دے رکھی تھی۔

اب جو نئی وارداتیں ہو رہی ہیں ان پر پولیس ابھی تک حرکت میں نہیں آئی۔ضلع چکوال اور اٹک کو ملانے والے مقام شاہ محمد والی اور تراپ کے درمیان دریائے سواں پل پر پہلے پولیس چوکی تھی لیکن اسے بھی تقریباپولیس کی نفری کی کمی کا بہانہ بنا کر ختم کر کے جرائم پیشہ عناصر کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ملزمان دیدہ دلیری کے ساتھ سب کچھ کریں بعد میں پولیس کی گاڑی آئی گی پوچھ کر چلی جائے گی سفارش ہو گی تو مقدمہ درج کیا جائے گا یا پھر مظلوم کو ہی پولیس دھمکیاں دے گی،رشوت طلب کرے گی کسی سردار کا فون آئے گا تو پولیس حرکت میں آئے گی بصورت دیگر مظلوم اور لٹے ہوئے شہری تھانے میں جانے سے اسی وجہ سے کتراتے ہیں۔تھانہ ٹمن کی صورتحال یہ ہے۔

آٹھ یونین کونسلیں تھانہ کی حدود میں آتی ہیں اور تھانے میں صرف پانچ کانسٹبل موجود ہیں جن میں سے صرف ایک گشت پر دو تھانے میں اور ایک ڈاک کے لئے آتا جاتا ہے۔ایسی صورتحال میں جب وارداتیں بڑھ رہی ہیوں تو پولیس کا ملزمان کو پکڑنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے ۔تھانہ ٹمن ہی وہی تھانہ ہے جہاں سے گزشتہ برسوں ملزمان تھانے کی چھت پھاڑ کر فرار ہو گئے تھے اور پولیس سوئی رہی تھی۔اب حکومت کو بھی جاگنا ہو گا ۔کم از کم شہباز شریف صاحب خادم اعلیٰ پنجاب جو امن کے دعوے تو بڑے کرتے ہیں ذرا لاہور سے باہر نکلیں تو انہیں اندازہ ہو کہ انکے اراکین اسمبلی نے عوام کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوا ہے اور خصوصا تھانوں میں عوام کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟

Government Of Pakistan

Government Of Pakistan

وارداتوں میں کمی کی بجائے اضافہ حکومت کے منہ پر بہت بڑا طمانچہ ہے ۔تلہ گنگ کے تمام تھانے سیاسی آماجگاہ،ایم این اے یا ایم پی اے کو”کالز” قانون چلتا ہے،حکومتی جماعت کو ووٹ دینے والوں کی زیادہ سنی جائے گی انکے تمام جرائم خصوصی ٹیلی فون کالز پر نظر انداز کر دیئے جائیں گے جبکہ مخالفین کو جھوٹے الزامات لگا کر بے بنیاد مقدمات میں پھنسانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے تھانوں میں ایس ایچ او اپنی مرضی کے لگوائے جاتے ہیں اگر کسی تھانے میں ایس ایچ او ایم این اے کی اجازت کے بغیر آئے تو اس کا تبادلہ کرا دیا جاتا ہے اور اسی طرح جو ایس ایچ او ممبران اسمبلی کی بات نہ مانے اس کو بھی ضلع بدر کر دیا جا تا ہے گشتہ برس سید اظہر حسن شاہ کو چکوال کی رکن اسمبلی کا ٹیلی فون نہ سننے پر پنڈی تبادلہ کر دیا گیا عوامی حلقوں نے تھانہ کلچر میں تبدیلی لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

کہا ہے کہ تھانے سیاسی سفارشوں پر نہیں بلکہ ہر شہری کی داد رسی کے لئے ہونے چاہیں اور ہر شہری کی بلا تفریق بات سنی جائے۔موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتیں صرف اس روڈ پر نہیں بلکہ تھانہ لاوہ کی حدود میں بھی ہو رہی ہیں۔ پچنند اور اس کے گردونواح میں اسلحے کی نوک پر نامعلوم افراد کے ہاتھوں شام کے اوقات میںموبائل فون، موٹر سائیکل سمیت نقدی چھیننے کے واقعات رونماہونے لگے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کانوں کان خبر نہیں۔ پچنند کے معروف تاجر شیخ نصراللہ اپنے موٹر سائیکل پر ملتان خورد پچنند روڈ پر آرہے تھے اچانک اسلحہ بردار موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم گروپ نے انہیں روک لیا اور اسلحے کی نوک پر ان سے موٹر سائیکل اور نقدی چھیننے کی کوشش کی جس پر شیخ نصراللہ نے مزاحمت کی اور شور شرابا کیا۔ جس پر اردگردسے لوگ جاگ گئے جس کی وجہ سے نامعلوم چور وں کا گروپ بھاگ گیا۔

اس سے قبل اسی رات کوٹشمس میں واقع ٹوٹی پلی پرنامعلوم افراد نے موٹر سائیکل سواروں کو اسلحے کی نوک پر روک کر ان سے موبائل فون اور نقدی چھین لی لیکن قانون سوتا رہا۔ پچنند اور اس کے گردونواح میں بڑھتی ہوئی جرائم، ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافے نے شہریوں کو خوفزدہ کردیا جس کی وجہ سے شام کے اوقات میں شہری گھروں میں ہی محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔آئی جی پنجاب خان بیگ کا تعلق اسی دھرتی سے ہے لیکن ان کی کارکردگی پر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ جب لاہور میں ایک سینئر صحافی و اینکر پر حملہ ہوا تو اسوقت وہ منہ چھپاتے پھر رہے تھے ۔تھانہ لاوہ کے لئے انہوں نے کثیر فنڈ تو جاری کروا دیا لیکن فنڈ سے زیادہ نفری کی ضرورت ہے۔

پولیس چوکیوں کے قیام کی ضرورت ہے۔ڈی پی او چکوا ل بھی اس پر غور کریں ۔شاہ محمد والی،چکی شاہ جی،پچنندمیں امن و امان کے قیام اور جرائم کی وارداتوں میں کمی لانے کے لئے پولیس چوکیاں انتہائی ضروری ہیں۔خان بیگ صاحب بھی توجہ دیں کیونکہ یہ انکا اپنا علاقہ ہے ۔اگر وہ اپنے علاقے کو غیر محفوظ بنا رہے ہیں تو انکے سر پر تو پنجاب کی ذمہ داری ہے ۔خدارا اس پرامن علاقے کو پرامن رہنے کے لئے کچھ کیجئے ۔عوام کو ہر صورت تحفظ چاہئے اور تحفظ دینا آپ کا حق ہے۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر:ممتاز اعوان
برائے رابطہ :03215473472