آج یہ کیا اور کیسا تاثر ہے؟

Words

Words

آج کل ہمارے یہاں افراد اور لوگوں میں یہ کیا اور کیسا تاثر ہے پایا جارہاہے…؟کہ ہر فرد خود کو تو پارسا مگر دوسرے کو گناہوں کی گٹھڑی سر پر اُٹھائے پھرنے والا غلیظ اِنسان سمجھتا ہے..؟ (یہاں پر میں نے لفظ غلیظ بھی انتہائی تفکر کے بعدمحتاظ انداز سے استعمال کیا ہے ورنہ جو لوگ دوسرے کو حقیر سمجھتے ہیں وہ تو اِس سے بھی بُرے اور ناگوار الفاظ کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں) یقینا ہمارے موجودہ زمانے کے ہر معاشرے اور ہرفردکے ہر ذہن میںپیداہونے والایہ تاثر بڑی حدتک غلط ہے.. اور سوسائٹیوں میں بگاڑ کا بڑاسبب بننے والے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے ۔

یہ ٹھیک ہے کہ آج جس ماحول میں ہم سانس لے رہے ہیں اِس میں ہر فردمکمل طورپرنہ توپارساہے اور نہ ہی ہرفرداتناغلیظ ہے کہ اِس سے شدت سے نفرت کی جائے اورنفرت کی اُس حدکو پہنچاجائے کہ کسی بھی حوالے سے بُرے فرد سے تعلقات ایسے توڑ لئے جائیں کہ اخلاقی اور معاشرتی اعتبارسے اِس فردکا حقہ پانی ہی بندکردیاجائے،اوراِسے معاشرے کے لئے ناسورقراردے کر اِسے معاشرہ بدرہی کردیاجائے(ہمارے یہاں اِن دِنوں ایساہی سلوک کچھ موقعہ پرست اور مفادپرست عناصر میڈیا کے ایک نجی ا دارے کے ساتھ بھی کررہے ہیں )آج ایسے ماحول اور معاشرے میں جو لوگ خودکو پارسااور سامنے والے کو غلیظ تصورکررہے ہیں

وہ بھی تو ذرااپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ لیں تواِنہیں معلوم ہوجائے گاکہ یہ بھی اپنے اندرسے قانون شکنی، بداخلاقی، اور ربِ کائنات اللہ رب العزت کے احکامات اور رسول خداۖ کی سُنتوں پر عمل نہ کرنے اور قرآنی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ نہ بنانے کی وجہ سے گناہوں کی کس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور اِن کے سرپربھی گناہوں کی غلاظت کے کتنے انبارموجود ہیں…؟اَب یہ اور بات ہے کہ آج دوسروں کی برائیوں کی تلاش میں لگے رہنے والے یہ خودساختہ اچھائی کے لبادھے میں لپٹے افراداور ادارے ا پنے گریبانوں میں نہیں جھانک رہے ہیں

کیوں کہ موجودہ حالات میں اِنہیں اپنے عیبوں کو دیکھنے کا وقت اور موقعہ ہی نہیں مل رہاہے اوریہ اپنے گریبانوں میں اِس لئے بھی نہیں جھانک پارہے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو پہلے ہی تمام اخلاقی، معاشرتی،مذہبی، سیاسی اور کاروباری برائیوں سے صاف وشفاف اور آبِ زم زم سے دھلے ہوئے ہیں اِنہیں اپنے عیب ڈھونڈنے اور گھرچ گھرچ کر نکالنے میں وقت ضائع کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے،یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جتناوقت اپنے ہی عیبوں کی تلاش میںلگادیںگے اگر اتناہی وقت ہم دوسروں کی خامیاں اور عیب تلاش کرنے میںلگادیں تواِس طرح پھرہم کئی لوگوں کو اپنا زیر اثر بنا سکتے ہیں اور اِنہیں بلیک میل کرکے اپنے بہت سارے جائز وناجائزکام نکلواسکتے ہیں۔

اَب کوئی میری یہ مانے یہ نہ مانے مگر یہ حقیقت ہے کہ آج کا اِنسان پاکستان سمیت دنیا کے جس کسی بھی معاشرے یا سوسائٹی سے تعلق رکھتاہووہ خودغرض مفادپرست اور موقعہ پرست ہے، اپنے فائدے کے خاطر یہ دوسرے کی تضحیک اور اِس کے حقوق پر ڈاکے مارنے سے بھی نہیں ڈرتاہے لگتاہے کہ شاید اِسے یہ بھی نہیں معلوم ہے کہ یہ تو اِنسان پیداہواہے مگر حیوان بن گیاہے،ایسے ہی اِنسانوں کے لئے حضرت شیخ سعدی کا قول ہے کہ ”اگرتجھے دوسروں کی تکالیف کا احساس نہیں ہے توتُواِس قابل نہیں ہے کہ تجھے اِنسان کہاجائے” حضرت کا یہ قول سمجھنے والوں کے لئے بڑامعنی خیز ہے ورنہ حیوان جیسے اِنسانوں کے لئے یہ کچھ بھی نہیں ہے

Allah

Allah

اپنے ذراسے فائدے کے لئے دوسروں کو بڑے نقصانات سے دوچارکرنابھی اِنسان اور اِنسانیت کے زمرے سے خارج ہے، خداکے نزدیک اچھااِنسان وہی ہے جو اُس کی دی ہوئی تمام نعمتوں کے باوجود بھی اپنے رب کا شکرگزار بندہ بنارہے اور اپنے رب کی نوازی گئیں تمام نعمتوں مقام و مرتبے اور عہدے کے باوجود بھی اللہ کے بنائے ہوئے ہراچھے اور بُرے، امیر اور غریب ، کالے اور گورے اِنسانوں سے محبت کرے اور اِن کے سامنے خودکو حقیرفقیر بے توقیر بناکرپیش کرے تو اِس کے اِس عملِ سے معاشروں میں خیرپھیلے گااور معاشرے ترقی اور خوشحال کی راہ پر بھی گامژن ہوں گے اور اِنسانوں میں آپس میں محبت اور بھائی چارگی اور اخوت ومساوات کا جذبہ بیدارہوگا

مگرجب کوئی یہ سمجھنے لگیں کہ سارے مقام ومرتبے اور عہدے اور دنیاکی تمام آسائشیں اور سہولتیں جو اِسے میسر ہیں وہ اِس کی محنت اور زورِ بازکی بدولت حاصل ہوئیںہیں تو یہ رب کی شکرگزاری کیوں کرے..؟ یہ تمام چیزیںاِسے تو اِس کی محنت اور ذہانت سے ملی ہیں یہ اِسے اللہ نے تو نہیںدی ہیں توپھر یہ اللہ کا شکرکیوں اور کس لئے اداکرے یقیناایسے ہی وہ لوگ ہیں جو اپنے غروراور گھمنڈ کی غلیظ چادراُوڑھے ہوئے ہیں اور خودکو دوسرے اِنسانوں سے افضل واعلیٰ تصورکرکے معاشروں میں فسادات برپاکرتے اورکراتے ہیں،ایسے ہی لوگ ہوتے ہیںجن میںاِنسانیت اور دوستی نام کی بھی نہیں ہوتی ہے۔

آج میرے مُلک اور معاشرے میں جتنے بھی موقعہ پرست اور مفادپرست حکمران اور سیاست دان زمینِ خداپر چیونٹیوںکی طرح رینگتے پھر رہے ہیں اور اپنی موقعہ پرستی اور مفادپرستی کی اُوٹ سے اپنے ہی معصوم اِنسانوں کولڑواکر اپنااپنااُلّوجو سیدھاکررہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں اپنے اندرتمام بُرائیاں رکھنے کے باوجود بھی خودکو پارسااور دوسرے کو گناہ گارجان کر اِسے غلیظ تصورکرتے ہیں حالانکہ یہ خود اُن تمام برائیوں اور خامیوں کا ذخیرہ اپنے اندرلئے ہوئے ہیں جنہیںکسی بھی مذہب اور معاشرے میں کسی بھی لحاظ سے درست قرارنہیں دیاجاتاہے

مگر لگتاہے کہ جیسے آج میرے مُلک اور معاشرے کا نظام ہی شاید اُلٹاہے کہ یہاں ہر اُس شخص کو عزت او رتوقیرو احترام سے نوازہ جاتاہے جو جتنابڑاقانون شکن اوراپنے وجودمیںتمام اخلاقی اور معاشرتی بُرائیوں کاآماجگاہ ہوتاہے،اور آج یہی وجہ ہے کہ ہم ترقی اور خوشحالی کے ثمرات سے عاری ہیں اور ایساہم اُس وقت تک کرتے رہیں گے کہ جب تک ہم پر موقعہ پرستوں اور مفادپرستوں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر حکمرانی کرنے والوں کا غلبہ رہے گاتب تک ہم نہ تہذیب یافتہ قوم بن پائیں گے اور نہ ہی دنیا کو اپنی صلاحیتوں سے مرغوب کرکے اُسے اپنا تابع کرسکیں گے توہمیں چاہئے کہ ہم اپنااحتساب کرنے کی عادت ڈالیںاور موقعہ پرستوں اور مفادپرستوں سے جھٹکارہ حاصل کریں۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com