ایران کو اسلحہ کی خرید و فروخت میں مدد کرنے والوں کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی: پومپیو

Mike Pompeo

Mike Pompeo

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) ایران پر اقوام متحدہ کی طرف سے عاید کردہ اسلحہ کے حصول اور فروخت پر پابندی کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکا نے خبردار کیا ہے کہ ایرانی حکومت کو اسلحہ فروخت کرنے، اسلحہ کی منتقلی میں سہولت فراہم کرنے یا جنگی سازو سامان کی فراہمی میں مدد کرنے والے کسی بھی فرد، ادارے، کمپنی یا ملک کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ دوسری طرف کل اتوار کو ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی طرف سے عاید کردہ اسلحہ کی خریدو فروخت پر پابندی کےخاتمے کے بعد اب تہران آزادانہ طور پر اسلحہ کی سودے کرے گا۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ایران پر اقوام متحدہ کی طرف سے عاید کردہ پابندیوں‌ کا خاتمہ کسی دوسرے ملک ،فرد یا کمپنی کو تہران کےساتھ اسلحے کی ڈیل کا موقع نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ اسلحہ کے حوالے سے کسی بھی قسم کا تعاون کرنے والوں کو سزا دی جائے گی اور انہیں بھی پابندیوں کا سامان کرنا پڑے گا۔

ایرانی وزارت خارجہ کی طرف سے انگریزی زبان میں جاری کردہ ایک بیان وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ٹویٹر کے ذریعہ شائع کیا ہے جس میں انہوں‌ نے لکھا ہے کہ آج تک ، اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلحہ کی منتقلی ، متعلقہ سرگرمیوں ، مالی خدمات ، اور اسلحے کے ایران میں داخلے اور اس کی نقل وحمل ،ایرانی شہریوں اور فوجی عہدیداروں پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے علاقوں سے گزرنے پرعاید کی گئی تمام پابندیاں خود بہ خود ہو گئی ہیں۔

اس کے جواب میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے لکھا کہ امریکا اپنے قومی اختیارات اور حکام کو کسی ایسے فرد یا شخص پر پابندیاں عائد کرنے کی خاطر استعمال کرنے کے لیے تیار ہے جو ایران کو روایتی ہتھیاروں کی فراہمی ، فروخت اور منتقلی میں ٹھوس طور پر معاون ثابت ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تمام ممالک جو مشرق وسطی میں امن و استحکام کے خواہاں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت کرتے ہیں انہیں ایران کے ساتھ اسلحہ کی اسمگلنگ میں حصہ لینے سے باز رہنا چاہیئے۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے ایران پر اسلحہ کے حصول پر پابندی عایدکی تھی۔ پانچ سالہ پابندی کل 18 اکتوبر 2020کو ختم ہوگئی ہے۔ چند ہفتے قبل امریکا نے ایران پر اقوام متحدہ کی اسلحے کے حصول پرعاید کردہ پابندی ختم کرنے کے لیے سلامتی کونسل سے رجوع کیا تھا مگر برطانیہ ، فرانس ، روس ، چین اور جرمنی نے ایران پر اسلحہ کی پابندی میں توسیع کی مخالفت کی تھی۔

امریکہ نے یک طرفہ طور پر 2018 میں معاہدے سے دستبرداری اختیار کی اور تہران پر دوبارہ سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ امریکا نے اس پابندی میں توسیع کی کوشش کی لیکن سلامتی کونسل نے اس کی مخالفت کی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران کے خلاف “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس نے گذشتہ ماہ تہران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ نافذ کرنے کا اعلان کیا۔