ایران کے متعلق جوہری توانائی ایجنسی کی رپورٹ پر یورپی ملکوں کو’سخت تشویش‘

IAEA

IAEA

ایران (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے یورینیم افزودہ کرنے کی سرگرمیوں میں اضافہ کے حوالے سے آئی اے ای اے کی تازہ رپورٹ پر’سخت تشویش‘کا اظہار کیا ہے۔ اس نئی پیش رفت سے جوہری معاہدے میں امریکا کی واپسی کا امکان خطرے میں پڑسکتا ہے۔

جوہری سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے اقوام متحدہ کے ادارے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے یورینیم افزودہ کرنے کی ایران کی صلاحیتوں کے حوالے سے تازہ ترین پیش رفت کے متعلق جمعرات کو ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ پر جرمنی، فرانس اور برطانیہ کی وزارت خارجہ نے ‘سخت تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔

آئی اے ای اے نے ویانا میں جاری اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایران نے یورینیم کی افزدگی کا سلسلہ جار ی رکھا ہوا ہے جسے جوہری بم کی تیاری میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

تینو ں یورپی ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ کی وزارت خارجہ نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ ایران کا یہ اقدام ‘سنگین خلاف ورزی‘ ہے اور ’سخت تشویش‘ کا باعث ہے۔

آئی اے ای اے نے اس ہفتے کے اوائل میں تصدیق کی تھی کہ ایران نے پہلی مرتبہ20 فیصد تک یورینیم کو افزودہ کر رہا ہے اور اس نے افزودہ یورینیم کی پیداواری صلاحیت 60 فیصد تک بڑھا لی ہے۔

جرمنی، فرانس اور برطانیہ کی وزات خارجہ کی طرف سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے،”یہ دونوں چیزیں جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی سمت اہم پیش رفت ہے جبکہ ایران کو قابل اعتماد سویلین ضرورت کے لیے اس طرح کے اقدامات کی ضرورت نہیں ہے۔”

ایران نے سن 2015 میں ایک مشترکہ جامعہ منصوبہ عمل (جے سی پی او اے) پر دستخط کیے تھے جس میں اسے اپنے جوہری پروگرام کو محدود رکھنے کے بدلے میں اقتصادی مراعات کا وعدہ کیا گیا تھا۔ امریکا، روس، چین، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور ایران اس معاہدے کے فریقین تھے۔

امریکا ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں سن 2018 میں اس معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد سے تہران معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیاں کرتا رہا ہے۔ دوسری طرف امریکا نے اس پر مزید پابندیاں عائد کردی ہیں۔

یورپی ممالک نے جمعرات کے روز جاری اپنے بیان میں کہا،”ہماری تشویش میں اس لیے مزید اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ ایران نے اپنے جوہری تنصیبات تک آئی اے ای اے کی رسائی محدود کردی ہے۔”

جے سی پی او اے یا ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ویانا میں گزشتہ کئی مہنیوں سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا اس بات چیت میں براہ راست شامل نہیں ہے تاہم اس کے مندوب ویانا میں موجود ہیں اور بات چیت میں ہونے والی پیش رفت سے انہیں مسلسل آگاہ کیا جاتا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے معاہدے کو بحال کرنے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے تاہم اس کا اصرار ہے کہ اس کے بدلے میں ایران کو اپنے جوہری پروگرام پر عائد پابندیوں پر عمل کرنا ہوگا۔ دوسری طرف ایران کا اصرار ہے کہ امریکا پہلے اس پر عائد پابندیوں کو ختم کرے۔

جرمن، فرانسیسی اور برطانوی وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا،”ویانا مذاکرات دو ماہ کے لیے موخر کرنے کے لیے ایران کی درخواست کو تسلیم کرلینے کے باوجود اس کی سرگرمیاں پریشان کن ہیں۔ اس نے مذاکرات کو دوبارہ شرو ع کرنے کے لیے ابھی تک کوئی تاریخ طے نہیں کی ہے۔”

بیان میں مزید کہا گیا ہے،”بات چیت سے انکار کرنے کے ساتھ ساتھ ایران کی جوہری سرگرمیوں نے جوہری معاہدے کی بحالی کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔”

اس ہفتے کے اوائل میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا تھا کہ ایران کی سرگرمیاں ”غیر تعمیری ہیں اور باہمی معاہدے میں واپسی سے متصادم ہیں۔”