عراق کا اربیل میں حملے پر ایران سے ’’واضح وضاحت‘‘ کا مطالبہ، سفیر کی طلبی

 Erbil Attack

Erbil Attack

اربیل (اصل میڈیا ڈیسک) عراق کی وزارتی کونسل برائے قومی سلامتی نے خودمختار کردستان کے علاقائی دارالحکومت اربیل پر بیلسٹک میزائلوں کے حملے کے حوالے سے ایران سے ’’واضح اور دوٹوک وضاحت‘‘کا مطالبہ کیا ہے اور بغداد میں وزارت خارجہ نے ایرانی سفیرکو طلب کیا ہے اور ان سے اس حملے پراحتجاج کیا ہے۔

سرکاری خبررساں ادارے آئی این اے کے مطابق کونسل نے کہا کہ ’’عراق نے سفارتی ذرائع سے ایرانی فریق سے دوٹوک اور واضح وضاحت کی درخواست کی ہے اور وہ جارحیت کومسترد کرنے کے حوالے سے ایران کی سیاسی قیادت کے مؤقف کا منتظر ہے‘‘۔

دریں اثناءعراقی وزارت خارجہ نے بغداد میں متعیّن ایران کے سفیر کوطلب کیا ہے اور ان سے اربیل پر ایران کے میزائل حملے اور اس سے ہونے والے مادی نقصانات ، شہری تنصیبات اور رہائشی علاقوں کو پہنچنے والے نقصان پراحتجاج کیا ہے اورکہا ہے کہ اس حملے سے علاقوں کے مکینوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

اس سے قبل اتوار کے روزعراق کے خود مختارعلاقے کردستان کی سکیورٹی فورسز نے اعلان کیا تھا کہ ایک ’’درجن بیلسٹک میزائلوں‘‘نے زیرتعمیرامریکی قونصل خانے سمیت اربیل شہر کو نشانہ بنایا ہے جس سے مادی نقصان ہواہے لیکن کوئی بڑا جانی نقصان نہیں ہوا۔

ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب نے اس میزائل حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اربیل میں اسرائیل کے ایک ’’تزویراتی مراکز‘‘کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اربیل پر یہ حملہ پاسداران انقلاب کی جانب سے گذشتہ منگل کواس اعلان کے بعد کیا گیا ہے کہ شام میں اسرائیل کے فضائی حملے میں اس کے دو ارکان ہلاک ہو گئے ہیں۔اس نے ان کاانتقام لینے کا عہد کیا تھا۔

عراق کی وزارتی کونسل نے کہا:’’ملک نے اس سے قبل اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی اور مختلف ریاستوں اور فریقوں کے درمیان دیرینہ تنازعات طے کرنے کے لیے اپنی سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کا اعلان کیا تھا اور ہمسایہ ممالک پر حملے کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال کومسترد کرنے کے مؤقف پرزور دیا تھا‘‘۔

ادھر امریکا نے اربیل پر میزائل حملے کی مذمت کی ہے۔محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا:’’یہ حملے عراق کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ان سے کسی بھی امریکی تنصیب کو نقصان نہیں پہنچا اور نہ ہی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔اور ہمارے پاس اس بات کے کوئی اشارے نہیں کہ اس حملے کا ہدف امریکا تھا۔ ایران کو فوری طور پرایسے حملے بند کرنے چاہییں، عراق کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے اور اس کے اندرونی معاملات میں اپنی مداخلت بند کردینی چاہیے‘‘۔

عراق میں حالیہ مہینوں میں امریکی افواج اوراس کے ساتھ کام کرنے والے ٹھیکےداروں کے زیراستعمال عمارتوں اور اڈوں کو باقاعدگی سے میزائل یا ڈرون حملوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔عراق میں ایران نواز مسلح دھڑوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے دعوے کیے ہیں اور عراقی اور امریکی حکام نے بھی ان کی جانب اشارے کیے ہیں اور انھیں ان کا موردالزام ٹھہرایا ہے۔