عراق: دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر امریکہ کی بمباری

Bombing

Bombing

امریکی (جیوڈیسک) امریکی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے جنگی طیاروں نے عراق کے دارالحکومت بغداد کے مضافات میں شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔

امریکہ اگست کے اوائل سے عراق میں دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر 160 سے زیادہ حملے کرچکا ہے مگر یہ پہلی بار ہے کہ امریکی فوج نے بغداد کے قریب ان جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی صدر باراک اوباما کی اعلان کردہ حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں امریکہ نے عراق اور شام دونوں ملکوں میں دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنے کا اعلان کیا ہے۔

امریکی طیاروں نے شمالی عراق میں سِنیچر کے قریب بھی دولت اسلامیہ کی فورسز پر حملے کیے ہیں جس میں چھ گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ کل ہی پیرس میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں دنیا کے تیس ملکوں نے دولت اسلامیہ کے خلاف امریکہ کی کمان میں بننے والے اتحاد میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔ مگر عراق کے پڑوسی ملکوں ایران اور شام دونوں کو ہی اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

عراق کے وزیر خارجہ ابراہیم الجعفری نے پڑوسی ملک ایران کو شرکت کی دعوت نہ دیے جانے پر تنقید کی ہے اور اس فیصلے کو قابل افسوس قرار دیا۔ ’میں نے اس پر افسوس کا اظہار کیا اور پیرس میں ہونے والے اجلاس اور بعد میں اخباری کانفرنس میں بھی اس کا اظہار کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کے تمام ہی ممالک دہشت گردی کے خطرے کے بارے میں فکرمند ہیں۔ ایران ہمارا پڑوسی ہے، اس نے ہماری مدد کی ہے اور اسے کانفرنس میں موجود ہونا چاہیے تھا مگر دعوت دینے کی ذمہ داری ہماری نہیں تھی۔‘

اس سے قبل ایران نے کہا کہ اس نے دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں تعاون کی امریکی درخواست مسترد کردی تھی۔ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ خطے میں امریکی کوششیں خود غرضی پر مبنی ہیں اور ان سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

امریکہ نے البتہ ایرانی رہنما کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ اُس نے ایران سے دولت اسلامیہ کے خلاف فوجی تعاون کی درخواست کی تھی اور کہا ہے کہ وہ ایران یا شام کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا۔ عراق کی زیادہ تر سرحدیں ایران اور شام سے ملتی ہیں مگر دونوں کے امریکہ کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔