کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

Indian Army

Indian Army

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی جاری کارروائیوں کے دوران گذشتہ ماہ اگست میں 18 کشمیریوں کو شہید کیا۔ ایک نوجوان کو جعلی مقابلے کے دوران شہید کیا گیا۔ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے گذشتہ ماہ پرامن مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال کے نتیجے میں 134 افراد شدید زخمی ہوئے جبکہ 174 شہریوں جن میں زیادہ تر نوجوان، حریت رہنما اور کارکن شامل تھے کو گرفتار کیا گیا۔ بھارتی پولیس اہلکاروں نے گذشتہ ماہ 7 خواتین کی عصمت دری بھی کی۔

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بانڈی پورہ نے ایک کشمیری نوجوان کو کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کٹھوعہ جیل جموں منتقل کرنے کے احکام جاری کیے ہیں۔برطانوی ہائوس آف کامنز (دارالعوام) میں کشمیر کی سیاسی اور انسانی ہمدردی کی صورتحال پر خصوصی مباحثہ شروع ہو گیا ہے۔ مباحثے کے میزبان کل جماعتی پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کے رکن اور ممبر پارلیمنٹ ڈیوڈ وراڈ نے کشمیر کی سیاسی اور انسانی حقوق کی صورتحال پر مباحثے کے لئے ابتدائی خاکہ ارکان کو پیش کر دیا ہے۔ ہائوس آف کامنز میں کشمیر پر مباحثے کے لیے کشمیر ڈویلپمنٹ فائونڈیشن نے اہم کردار ادا کیا ہے۔کشمیر ڈویلپمنٹ فائونڈیشن کی کشمیر کی سیاسی اور انسانی ہمدردی کی صورتحال پر خصوصی رپورٹ ہائوس آف کامنز کو بھیج دی گئی ہے۔ رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں حالیہ قدرتی آفات کے نتیجہ میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا احاطہ کیا گیا ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ حالیہ سیلاب سے پاکستان بھر میں 450 افراد جاںبحق ہوئے ہیں 64 افراد آزاد کشمیر، 11 گلگت بلتستان اور 200 سے زیادہ مقبوضہ کشمیر میں لوگ مارے گئے۔ کے ڈی ایف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کشمیر کے ایک کروڑ 70 لاکھ شہری کئی دہائیوں سے پاکستان اور بھارت کے مقبوضہ علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ بیس برسوں میں مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تلاش میں ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری مارے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کے تحت فوج کو نہتے شہریوں کے قتل عام کی اجازت ہے۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سرحدی تنازعہ نہیں، 17 ملین شہریوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے۔ کشمیری عوام چاہتے ہیں کہ وہ دوبارہ متحد ہوں کیونکہ ان کے خاندانوں کو لائن آف کنٹرول کے آر پار جبراً تقسیم کر دیا تھا۔ کشمیری چاہتے ہیں کہ وہ نہ صرف متحد ہوں بلکہ وہ آزاد، خود مختار، پرامن ملک کے متمنی بھی ہیں۔ کشمیریوں کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عالمی برداری کو مدد فراہم کرنا ہو گی۔ اس سلسلہ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر بامعنی مذاکرات انتہائی ضروری ہیں۔

ان مذاکرات میں تنازعے کے اصل فریق کشمیریوں کی شرکت بھی ضروری ہے۔ برطانیہ میں مقیم پانچ لاکھ سے زائد کشمیری چاہتے ہیں کہ تنازعے کا پرامن حل نکلے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ ہو۔ کے ڈی ایف کی دستاویز میں برطانوی ممبران پارلیمنٹ سے کہا گیا ہے کہ کشمیر میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے عالمی برداری کی امداد کے حصول کیلئے کوششیں کریں۔ برطانیہ میں مقیم پانچ لاکھ سے زائد کشمیری چاہتے ہیں تنازعہ کا پرامن حل نکلے اور ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ ہو۔برطانوی پارلیمنٹ میں ممبران پارلیمنٹ کے ایک خصوصی اجلاس میں گذشتہ روز مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے بحث ہوئی ہے جس میں برطانوی پارلیمنٹ کے بیس سے زائد ارکان نے شرکت کی۔

Jammu Kashmir

Jammu Kashmir

اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر بحث کئے جانے پر ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی نے شدید احتجاج کیا اور کہا ہے کہ اگر بھارتی پارلیمنٹ میں آئس لینڈ اور سکاٹ لینڈ پر بحث ہو تو برطانیہ کیسا محسوس کرے گا؟۔کانگریس سمیت دیگر جماعتوںنے بھی اس پر شدید احتجاج اور بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرا ر دیا ہے۔ برطانیہ میں ہندوستان کے ہائی کمیشن نے اس بات پرسخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔برطانیہ میں ہندوستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر وریندر پال نے سخت تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے کے کچھ طبقے دونوں ممالک کے درمیان مستحکم تعلقات کے حق میں نہیں ہیں۔ یہ ہندوستان اور برطانیہ کے مضبوط رشتوں کے حق میں سود مند نہیں ہے۔ حال ہی میں برطانیہ کے نائب وزیر اعظم نک کلیگ نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان برطانیہ ثالثی نہیںکرنا چاہتا۔ مسئلہ کشمیر کا حل صرف ہندوستان اور پاکستان ہی مذاکرات کے ذریعہ حل کر سکتے ہیں۔در اصل ممبر پارلیمنٹ وارڈ ہاؤس آف کامنز میں بریڈ فورڈ ایسٹ کی نمائندگی کرتے ہیں ، بریڈ فورڈ ایسٹ وہی علاقہ ہے جہاں پاکستانی نژاد برطانوی لوگوں کی کثیر آبادی ہے۔ اس سے پہلے بھی اس علاقہ سے منتخب ہونے والے کچھ ممبران پارلیمنٹ کشمیر کے معاملہ پر حکومت پر دباؤ ڈال چکے ہیں۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے مسئلہ کشمیرکے حل اورمقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی فوج کیجانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کروانے کیلئے 26اکتوبر کو لندن میں ملین مارچ کا اعلان کیا ہے جس میںکئی برطانوی پارلیمنٹ نے بھی شرکت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس طرح ملین مارچ میں مختلف مکاتب فکر اور انسانی حقوق کی علمبر دار تنظیموں نے بھی شرکت کا فیصلہ کیا ہے۔

اجلاس میں برطانوی پارلیمنٹ میں قائم آل پارٹیز کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اینڈریوں گرفتھس نے کی جبکہ اس میں کثیر تعداد میں ممبران ہائوس آف کامنز اور لارڈز نے شرکت کی۔ برطانوی پارلیمنٹ میں قائم آل پارٹیز کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اینڈریوں گرفتھس نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یہ ایک درست فیصلہ ہے کیونکہ عالمی برادری کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ طویل عرصہ سے مسئلہ کشمیر حل طلب ہے اور بھارت مقبوضہ کشمیرمیں اپنی آٹھ لاکھ فوج کے ذریعہ انسانی حقوق کی پامالیاں کر رہا ہے۔ اس لئے ہم نے اس ملین مارچ میں شرک کا واضح اور باضابطہ اظہار کیا ہے۔بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہاکہ میں برطانوی پارلیمنٹ کا شکر گزار ہوں کہ برطانوی ممبران پارلیمنٹ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھ کر کشمیر پر اپنا نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست کی ہے۔ اسی طرح برطانوی وزیر خارجہ کو بھی خط لکھ کر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر برطانوی حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے اور کہا ہے کہ وہ اس مسئلہ پر اپنا کردار ادا کرے۔ مقبوضہ کشمیر میں بزرگ کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی نے تحریک آزادی کے خلاف بھارت کے مکروہ عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے آزادی پسند قیادت کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ اچھا وقت ہے کہ تحریک آزادی کو مضبوط بنانے کے لیے آزادی پسند جماعتیں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام حریت جماعتیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یکسان موقف اپنائیںبھارتی آئین کے دائرے کے تحت مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔

Narendra Modi

Narendra Modi

ایک ایسے وقت میں جب نریندر مودی کی خطرناک کشمیر پالیسی کھل کر سامنے آچکی ہے، کشمیری آزادی پسند رہنمائوں کی صفوں میں اتحاد کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیںلہذا ان تمام سازشوں کو ناکام کرنے کے لیے ہم سب کو ایک واضح ہدف اور غیر مبہم طریق کارکے ساتھ گے بڑھنا ہو گا۔

تحریر: محمد شاہد محمود