عالمِ اسلام کی تقسیم

Pakistan

Pakistan

دنیا میں جو بھی آیا، آزمایا گیا کسی کی آزمایش اقتدار و اختیار، تاج و تخت او رمال و دولت کے انباروں سے ہوئی اور کسی کی بھوک، افلاس، ظلم و ستم اور پھانسی کے پھندوں سے۔ کامیاب وہی ٹھیرا جس نے ہر دو صورتوں میں اپنے رب کی سچی اطاعت و بندگی اختیار کی۔ اپنا اصل ہدف، ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی کو رکھا۔ آج کے قومی یا عالمی حالات پر نظر دوڑائی جائے، تو خون مسلم ہر جگہ پانی سے بھی ارزاں ہے۔ پہلے صرف کشمیر، فلسطین اور افغانستان کے مظلوم اہل ایمان کے لیے دْعائے نصرت ہوتی تھی، اب مصر، شام،بنگلہ دیش، اراکان، عراق، یمن، لیبیا، سری لنکا، وسطی افریقا، صومالیہ اور اب پاکستان یعنی فہرست طویل سے طویل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پہلے صرف اغیار کے قبضے اور استعمار کے مظالم کے خلاف دْعائیں ہوتی تھی، اب خود مسلمان حکمران اور ان کے مسلح لشکر، کفار کے مظالم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔

گذشتہ صدی کے آغاز میں بھی عالم اسلام کی بندر بانٹ کی گئی تھی۔ 1915 اور 1919کے درمیان فرانسیسی وزیر خارجہ فرانسوا جارج پیکو اور برطانوی وزیر خارجہ مارک سائکس نے مشرق وسطیٰ کو ذاتی جاگیر کی طرح بانٹ لیا۔ شام اور لبنان پر فرانسیسی، عراق اور خلیج پر برطانوی قبضہ ہوگیا۔ مشرقی اْردن اور فلسطین بھی برطانوی نگہداری میں دیے گئے ، لیکن چونکہ فلسطین کو اسرائیل میں بدلنا تھا، اس لیے ساتھ ہی وضاحت کی گئی کہ اس ضمن میں اعلان بالفور( Balfour Declaration) پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ 2نومبر 1917 کو جاری ہونے والے اس منحوس ڈکلریشن میں پوری ڈھٹائی سے لکھا تھا:His Majesty\’s Government views with favour the establishment in Palestine home for the Jewish people. خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور تقسیم و تسلط کے بعد ان استعماری طاقتوں کو خود بھی جانا ہی تھا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی چلے گئے، لیکن جاتے جاتے اکثر مسلم ممالک میں فوجی آمر اور اپنے غلام حکمران بٹھا گئے۔

ایسے حکمران کہ جنھیں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ، جہاں اور جیسے چاہا استعمال کیا جاسکے ۔ گذشتہ پوری صدی اْمت مسلمہ نے استعماری طاقتوں کے کاشت کردہ ان زہریلے بیجوں کی تلخ فصلیں کاٹی ہیں۔وسائل کے انبار ہونے کے باوجود عوام بھوک اور ننگ کا شکار رہے ہیں برس ہا برس مسند اقتدار پر براجمان رہنے کے بعد جب بعض حکمرانوں سے نجات حاصل کی گئی تو معلوم ہوا کہ، قوم کے اَربوں ڈالر خود ہڑپ کیے بیٹھے تھے یا پھر ان قیمتی وسائل کا تمام تر فائدہ استعمار اور اس کی پالتو ریاست اسرائیل کو پہنچا رہے تھے ۔ یہ سانحات و جرائم حکمرانوں کا تعارف تو کروا ہی رہے ہیں، عالمی طاقتیں بھی بے نقاب ہورہی ہیں۔

مصر اور شام میں صدارتی انتخابی ڈراما ہو یا بنگلہ دیش کے ڈھکوسلا انتخابات، جمہوری اقدار کی دعوے دار قوتوں نے ان کی حقیقت سے باخبر ہونے کے باوجود آنکھیں موند لی ہیں اور زبانیں گنگ کررکھی ہیں۔ یہی عالم اور پالیسی حقوق انسانی کی توہین کے بارے میں ہے ۔ میدانِ تحریر میں خواتین کی بے حرمتی ہو، شامی مہاجر کیمپوں میں دم توڑتی بچیاں ہوں یا بنگلہ دیش میں 20سے 25سال کی عمر کی درجنوں طالبات کی اس الزام میں گرفتاریاں ہوں، کہ ان سے حکومت مخالف سٹکر برآمد ہوئے ہیں، دنیا کی کسی ‘ملالہ فین’ این جی او یا حکومت کو توفیق نہیں ہوئی کہ ان کے خلاف آواز اٹھائے ۔ نام نہاد مصری عدالتوں نے چند منٹ کی کارروائی کے بعد مارچ میں 529افراد کو سزاے موت سنادی، ‘مہذب’ دنیا نے خاموش رہ کر اس جرم میں شرکت کا ارتکاب کیا۔

Islam

Islam

عالمی رویے نے قاتل نظام کی حوصلہ افزائی کی، عدالتوں نے 28 اپریل کو دوبارہ غضب الٰہی کو دعوت دیتے ہوئے اخوان کے مرشد عام سمیت 700 مزید افراد کو پھانسی کی سزا سنادی 21جون کو مرشد عام سمیت 150 افراد کوپھر تیسری بار سزاے موت سنا دی۔ لیکن دنیا یوں اندھی، بہری، گونگی بنی ہوئی ہے کہ جیسے انسانوں کوپھانسیاں نہیں دی جارہیں، کیڑے مکوڑوں سے نجات حاصل کی جارہی ہے۔ ٹھیک 100 برس قبل اور آج رْونما ہونے والے واقعات پر غور کریں تو حیرت انگیز مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ دشمن کی چالیں اور ہتھکنڈے بھی وہی ہیں اور اپنوں کی حماقتیں اور جرائم بھی وہی۔ تب بھی مغربی استعمار کا ہدف عالم اسلام کو تقسیم و تباہ کرنا تھا۔ تب بھی اس کے اصل آلہ کار، حرص اقتدار کے شکار حکمران تھے ، اب بھی اس کا ہدف اور آلہ کار یکساں ہے ۔ رابطے کے تیز رفتار وسائل، ذرائع ابلاغ کے مہیب جال اور ہتھیاروں کے مزید مہلک پن نے اسے اور اس کے غلاموں کو مزید غرور و سفاکیت میں مبتلا کردیا ہے۔

گویا تاریکی اور شدائد عروج کو جاپہنچے ہیں۔ آج بھی رحمت خداوندی کے علاوہ سب در بند دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں اْمید کی کرن تعصبات سے پاک، بے لوث و مخلص اہل دین اور انہی اسلامی تحریکات کو بننا ہے، جنھوں نے گذشتہ صدی میں تجدید و احیاے دین کا فریضہ انجام دیا۔ گذشتہ صدی کے آغاز میں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی تھی، آج وہ لاکھوں میں ہیں۔حلقہ یاراں ہو، یعنی اپنے ہم وطن مسلمانوں میں کام کرنا ہو تو یہ تحریکات ہزاروں شہدا اور اسیر پیش کرکے بھی پْرامن رہتی ہیں۔ دعوت و تربیت اور پْرامن سرگرمیوں پر اکتفا و انحصار کرتی ہیں۔ لیکن کشمیر، فلسطین، افغانستان اور عراق کی طرح استعمار قابض ہوجائے ، تو جہاد اور فداکاری کی ناقابل یقین تاریخ رقم کردیتی ہیں۔ حقائق اور خود اغیار کی اپنی دستاویزات ثابت کررہی ہیں کہ آیندہ 10 سے 15 برس انتہائی اہم ہیں۔ عالمِ اسلام کو تقسیم کرنے کا ایک اہم ہدف اسرائیلی ناجائز ریاست کا دفاع قرار دیا جاتا ہے ۔ اب خود اسرائیلی دانش ور سوال اْٹھا رہے ہیں کہ کیا ہم آیندہ عشرے کے اختتام تک اپنا وجود باقی رکھ سکیں گے؟

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر۔روہیل اکبر
03466444144