کوئی تو ہو جو درد دل کی دوا کرے

Mother

Mother

لاہور میں ایک اور د لخراش اور دل دہلا دینے والی داستان نے دماغ کو ماف کر دیا نہ کچھ سمجھ آ رہی ہے اور نہ ہی بوجھ ماں تو دھرتی پر بسنے والی سب سے عظیم مخلوق ہوتی ہے وہ ماں جس کے قدموں تلے جنت رکھی گئی ہے وہ ماں جو زندگی کا ہر دکھ اپنے اوپر سہتی ہے مگر اپنے بچوں کو ان تمام سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے اور پھر ہمارے معاشرے کی ماں تو اپنا ساری زندگی کو اپنے بچوں کے نام کر دیتی ہے۔

اگر شوہر پیار کرنے والا ہو تو پھر بھی وہ ماں بننے کے بعد اسے توجہ نہیں دے سکتی اور اگر مار پیٹ والا ہو تو ساری زندگی اپنے بچوں کے مستقبل کے لیئے اسی خاوند کے ساتھ گزار دیتی ہے اور زندگی میں کبھی نوبت طلاق تک پہنچ جائے تو دوسری شادی کا سوچتی بھی نہیں لیکن کیا کوئی اتنی سنگدل عورت بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بے دردی سے مار دے میری ایک جسم فروش عورت جو کہ ماں تھی سے اس سلسے میں بات ہوئی اسکا کہنا تھا کہ میں اپنے بچوں کے لیئے جسم فروشی پر مجبور ہو ں انکی چھوٹی چھوٹی خواہشات نے مجھے مجبور کیا کہ میں اپنے جسم کی قربانی دوں بچوں کی خوشی کے لیے میں نے اپنی خوشیاں قربان کی ہیں۔

اب میری خوشی اپنے بچوں کی خوشی میں ہے جب تک میرے بچے بھوکے ہوتے ہیں میں کھانا نہیں کھاتی جب تک وہ سوتے نہیں ہیں میں نہیں سوتی اس سے جب میں نے یہ پوچھا کہ تم حکومت سے کیا کہنا چاہوگی تو کہنے لگی کہ صرف اگر میرے بچوں کی تعلیم اور بیماری کا خرچہ اگر حکومت اٹھا لے تو میں کیا میری طرح کی کوئی بھی عورت ایسا کام نہیں کرے گی ہم ایک ٹائم کا کھانا کھا لیں گے کسی کے گھر کام کرکے بچوں کے ساتھ رہ لو ں گی مگر بچوں کی ضروریات جو کہ کافی زیادہ ہیں اسکے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔

Poverty

Poverty

ایک اور ادھیڑ عمر عورت اور ایک نوجوان لڑکی کو کو سڑک پر گھومتے اور لوگوں سے مدد کی اپیل کرتے دیکھا جوان بیٹیاں ہیں انکے رشتے کروانے ہیں لیکن جہیز کے لیئے سامان نہیں ہے باپ انکا نشہ کرتا ہے اور اسے اپنے بچیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے لیکن کیا کیا جائے ہمیں تو دیگیں پکا کر اپنا نام اونچا کرنے سے فرصت نہیں تو ایسے میں ان معصوم بچیوں کی مدد کون کرے گا وہ یا تو کسی ایسے کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں جو نشئی ہوتے ہیں یا پھر انکو آگے جسم فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے کیونکہ ہم لوگ تو رشتے کرتے ہی وہاں سے ہیں جہاں سے ہمیں جہیز کی مد میں ٹھیک ٹھاک دولت ملنے کی امید ہو اب اس میں ریاست کیا کردار ادا کر سکتی ہے یہ مجھے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

سڑک پہ کھڑی ایک 75 سالہ ماں جو کہ اپنے معذور بیٹے کے لیئے رومال بیچتی ہے اور اسکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیئے اپنی غربت اور لاچارگی کا بہانہ نہیں بناتی اور نہ ہی حکومت کو کوستی ہے کہ وہ میری مدد نہیں کر رہی ماں کا یہ رخ دیکھوں تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں مگر جو کچھ جوہر ٹان میں ہوا سنگدلی کی انتہا ہے گو پولیس اس واقعہ کا مختلف پہلوں سے جائزہ لے رہی ہے مگر کیا واقعی یہ انسانی تاریخ کے منہ پر طمانچے والا کام غربت کی وجہ سے کیا گیا ؟ کیا ریاست اس جرم میں شریک کار سمجھی جائے۔

حضرت عمر کے دور میں بچوں کے دودھ چھوڑنے پر انکا وظیفہ مقرر کیا گیا اپنی رعایا کی جان و مال کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری سمجھنے والا عمر اپنی رعایا کے حالات کو جاننے کے لیئے راتوں کو گلیوں میں گھوما کرتا تھا کیونکہ اس وقت اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں تھا ایک بچے کے رونے کی آواز آرہی تھی اور ماں اسکو ڈانٹ رہی تھی عمر نے اس وقت اسکی ذاتی زندگی میں دخل نہیں دیا کیونکہ یہ اس عورت کی چار دیواری کے تقدس کا معاملہ تھا مگراپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھانا تھا تو اگلے دن اس عورت سے وجہ پوچھی گئی تو پتہ چلا کہ وہ بچے سے دودھ چھڑانا چاہ رہی تھی کیونکہ اگر وہ دودھ چھوڑتا تو اس بچے کو وظیفہ ملنا تھا یہ سوچ کر عمر فاروق گہری سوچ میں مبتلا ہوگئے اور تاریخ میں زندہ رہنے والا حکم جاری کردیا گیا کہ بچہ جونہی پیدا ہوگا۔

حکومت اسکا وظیفہ شروع کر دیگی اسی اصول کو دنیا کے آج کے مہذب ممالک نے اپنایا اور آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ہم سے کئی نسلیں آگے ہیں چاہے وہ اخلاقیات ہوں یا علم تعلیم وہ صحت کا میدان ہو یا جدید ترین وسائل ایک ریاست اپنے ہر ایک شہری کے جان و مال، عزت، بیماری ،تنگد ستی ، بے روزگاری اور بنیادی حقوق کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے وہ ریاستیں اپنا حق حکمرانی کھو دیتی ہیں جواپنی رعایا کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہوتی ہیں۔

ہمیں بحیثیت ایک قوم بھی یو ضرور سوچنا ہوگا کہ ہم کس طرف جارہے ہیں کیا دنیا میں سب سے زیادہ خیرات بانٹنے والے ممالک میں سے ہونے کے باوجود بھی ہمارے معاشریکی ایسی تصویر ہمارے معاشرتی نظام پر بھی سوالات نہیں اٹھائی کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ حقدار تک اسکا حق نہیں پہنچ پا رہا ایسے واقعات ہمارے بچوں کی تربیت کیس طریقے سے کی جارہی ہے پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں بچے شادی کے قابل ہوں نہ ہوں ہمارے بڑے انکو شادی کروا دیتے ہیں جسکی وجہ سے وہ ذہنی طور پر خود کو تیار نہیں کر سکتے۔

میاں بیوی کے آپس کے جھگڑے بھی اس قسم کے واقعات کا سبب بنتے ہیں کیونکہ لڑکیوں یا لڑکوں کی مرضی کے بغیر شادیاں کبھی کبھی ایسا رخ بھی پیش کرتی ہیں لیکن یہاں پر بھی ریاست کو اپنا بالادستی کو ثابت کرنا ہوگا اور ایسی قانون سازی کرنا ہوگی کہ کوئی اپنے بچوں کی زبردستی شادی نہ کروا سکے۔

حکومت کو چاہئے کہ وہ اب بچوں کے وظیفے کا اعلان کر دے یا اس وقت کرے گی جب وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اور اس طرح کے واقعات مزید ہونگے جب کوئی ماں اپنے بچوں سمیت چلتی ہوئی ریل گاڑی کے نیچے آجائے گی ماں کا پیار کتنا عظیم ہوتا ہے یہ صرف ماں جانتی ہے یا ماں کو بنانے والا جانتا ہے۔

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو اگر تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

Zahid Mehmood

Zahid Mehmood

تحریر: زاہد محمود (ٹیکسل )
zahidmuskurahat1122@gmail.com
03329515963