غذائی قلت کے سبب بچوں کی شرح اموات روکنے کیلئے حکومت کردار ادا کر ے، طبی ماہرین کا سیمینار سے خطاب

کراچی : پاکستان میں بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے ملک میں سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ ہے جسے بری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے جوکہ ایک لمحہ فکریہ ہے سندھ میں غذائی قلت کا سامنا سب سے ذیادہ بچے کررہے ہیںاس کی تدارک اور بچوں کی زندگیوں کو محفوظ بنا نے کے لئے حکومت ،این جی اوز،میڈیا اور دیگر اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ان خیالات کا اظہار طبی ماہرین نےSave The Children کے تحت غذائی قلت اور بچوں کے تحفظ کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سنیئر ریسرچر حارث گزدر نے کہاکہ اس وقت ہمارے ملک میں 74فیصد ورکرز زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں جن میں کثیر تعدادخواتین کی ہے جو کہ زراعت کی میدان میں مصروف عمل ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو گذائی قلت سے بچانا چاہتی ہیں۔

کیو نکہ وہ اپنے کام کے ذریعے گھریلو معاشیات میں توازن پیدا کرنا چاہتی ہیں ہمارے چاروں اطراف جو معاشرتی تبدیلی رونما ہورہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے انہوں نے کہاکہ غذائی قلت کو ہم ختم کرسکتے ہیں اس کے لئے گڈ گورنس اور سیاسی و معاشرتی لوگ ایک میز پر بیٹھ کر اس کا حل نکال سکتے ہیں اسی طرح ہم غذائی قلت کا خاتمہ اور اپنے بچوں کو محرومیوں سے بچا سکتے ہیں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سیو دی چلڈرن کے صوبائی منیجر اقبال ڈیتھو نے کہاکہ غذائی قلت ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے اس کے حل کے لئے تمام اداروں کے ساتھ معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کو متحرک ہونا پڑے گا جن میں پالیسی میکرز ،لائرز،میڈیا اور سول سوسائٹی کو یکجا ہونے کی ضرورت ہے سیمینار سے اپنے خطاب میں ڈاکٹر ارشاد دانش نے کہاکہ پاکستان اور خاص کر سندھ کو اس غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہمارے ملک کا ہر دوسرا بچہ غذائی قلت کا شکار ہے اور یہ رپورٹ نیو ریشن سروے 2011ء کے مطابق ہے اس موقع پر ماہر نیرولوجسٹ ڈاکٹر شبینہ عارف نے کہاکہ سندھ میں ایک چوتھائی پاکستانی خطرناک حد تک اس مہلک غذائی قلت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

پانچ سال سے کم عمر بچے کی تعداد 49.8فیصد ہے جن کی وجہ سے وہ پیدائشی طور پر جسمانی کمزوری میں مبتلا ہوتے ہیں جن کی تعداد سندھ میں 40.5فیصد ہے اور اس میں ابھی تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی جو قابل افسوس ہے انہوں نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہاکہ سائوتھ ایشیاء میں ایسے کئی ممالک ہیں جو ان غذائی قلت کے مرحلے سے گزر رہے ہیں اور خاص کر مختلف حالات میں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں غذائی قلت کی وجہ سے ان کی نشو نماء بری طرح متاثر ہے جس میں خاص کر سندھ میں 52.5فیصد نارمل جسامت 23.7فیصد میں جسمانی کمزوری اور24فیصد مٹاپے کا شکار ہیں سمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈین شعبہ اطفال چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ ڈاکٹر سیف اللہ جامرو نے کہاکہ غذائی قلت کی وجہ سے بچوں میں نئی نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں جو ایک انتہائی افسوسناک اور تشویشناک پہلو ہے غذائی قلت پر قابو پانے میں ہماری قوم کی بقاء ہے ۔ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی ڈاکٹر سلمیٰ شیخ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ طاقت کا توازن کبھی برقرار نہیں رہ سکتا جب تک ہم ان معصوم بچوں کی زندگی سے غذائی قلت کا خاتمہ نہیں کردیتے ۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے منیجر سیو دی چلڈرن آصف اقبال نے کہاکہ سندھ میں سیلاب زدہ علاقوں میں ہماری ٹیم نے غذائی قلت کو دور کرنے میں بہت اہم کردار اد اکیا اور اس کے ساتھ ساتھ متاثرین سیلاب کو علاج و معالجے کی سہولت بھی فراہم کی ماہر شعبہ اطفال ڈاکٹر اقبال میمن نے شرکاء سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ غذائی قلت کو ہمیں جنگی بنیادوں پر ختم کرنا ہوگا صوبائی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ غذائی قلت پہ عدم توجہ ہماری بربادی کا سبب بن سکتی ہے کیو نکہ یہ غذائی قلت اس دودھ پینے والے بچے تک منتقل ہوچکا ہے جو کہ حکومت وقت کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔