بحیرہ روم کے علاقوں کا تنازعہ، ترکی کی یونان کو دھمکی

Recep Tayyip Erdogan

Recep Tayyip Erdogan

ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) اس علاقے میں جنگی مشقوں کا آغاز کرنے سے قبل ترک صدر نے یونان کو نتائج سے خبردار کیا ہے۔ کئی عشروں بعد دوبارہ ان دنوں ترکی اور یونان کے مابین شدید کشیدگی جاری ہے۔ اصل مسئلہ زیر سمندر گیس کے ذخائر کا ہے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوان نے ہفتے کے روز یونان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مشرقی بحیرہ روم میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے حوالے سے مذ‌اکرات کرے ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔ استنبول میں ایک ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”وہ سمجھ جائیں گے کہ ترکی میں غیر اخلاقی نقشوں اور دستاویزات کو پھاڑنے کی سیاسی، معاشی اور فوجی طاقت موجود ہے۔‘‘

ترک صدر کا اشارہ مشرقی بحیرہ روم کے ان علاقوں کی طرف تھا، جنہیں یونان اور قبرص نے اپنا ‘خصوصی معاشی سمندری زون‘ قرار دے رکھا ہے۔ خطے میں اپنے مسابقتی دعوؤں کے دفاع کے لیے تمام فریقین نے وہاں بحری اور فضائی فوج تعینات کر رکھی ہے۔ صدر ایردوآن کا مزید کہنا تھا، ”وہ یا تو سیاست اور سفارت کاری کی زبان کو سمجھیں یا پھر میدان میں تکلیف دہ تجربات کے لیے تیار رہیں۔ ترکی اور ترک عوام، ہم ہر ممکنہ نتیجے کے لیے تیار ہیں۔ ‘‘

ترک صدر کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب حال ہی میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے کہا تھا کہ یونان اور ترکی کے فوجی افسران نے کسی بھی مسلح حادثے سے بچنے کے لیے تکنیکی مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ ترکی بحیرہ روم کے مشرقی متنازعہ علاقے میں گیس کے ذخائر تلاش کر رہا ہے جبکہ یونان اس علاقے کو اپنی ملکیت قرار دیتا ہے۔

ترکی نے یونان پر سمندری وسائل کا غیر منصفانہ حصہ چھیننے کا الزام عائد کیا ہے جبکہ یونان اور قبرص ترکی طرف سے گیس کے ذخائر کی تلاش کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بحیرہ ایجیئن اور مشرقی بحیرہ روم میں یونان اور ترکی کے لڑاکا پائلٹوں کے مابین اشتعال انگیزیوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ گزشتہ ماہ ترکی اور یونان کے دو بحری جہاز بھی آپس میں ٹکرائے تھے، جس میں کوئی زخمی تو نہیں ہوا تھا لیکن بحری جہازوں کو ہلکا نقصان پہنچا تھا۔

یورپی یونین اس معاملے میں یونان اور قبرص کے ساتھ ہے اور ترکی کو ممکنہ پابندیوں کی دھمکی بھی دے چکی ہے۔ یورپی یونین کے دو طاقتور ملکوں میں سے ایک فرانس کھل کر یونان کا ساتھ دے رہا ہے جبکہ جرمنی ثالثی کی کوششوں میں مصروف ہے۔

دوسری جانب ترک صدر نے ہفتے کو واضح کر دیا ہے کہ اس پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں، ” ترکی اُس وقت تک کسی بھی طرح کی (توانائی کے وسائل میں) شراکت کے لیے تیار نہیں ہے، جب تک یہ منصفانہ نہ ہو۔‘‘ ان کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا، ” ورنہ ترکی ہر واقعے اور نتیجے کے لیے تیار ہے۔‘‘