مودی کا کشمیر میں ہندوؤں کی ’آباد کاری‘ کا ماسٹر پلان

Narendra Modi

Narendra Modi

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں رہائش اختیار کرنے سے متعلق قوانین میں سات عشروں سے بھی زائد عرصے میں پہلی بار تبدیلی کر دی ہے۔ گزشتہ برس انہوں نے جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بھی ختم کر دی تھی۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت مشرق وسطیٰ میں فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آبادکاری کے سے انداز میں ریاست جموں و کشمیر کے معاشرتی طبقات کی شناخت اور آبادی کی ہیئت تبدیلی کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

مودی حکومت نے پانچ اگست سن 2019 کے روز بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی خصوصی نیم خود مختار شناخت بھی ملکی دستور میں ترمیم کر کے ختم کر دی تھی۔ اس ترمیم سے کشمیر کے جھنڈے اور علیحدہ آئین سمیت دوسرے حقوق بھی ختم ہو گئے تھے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر مسلم اکثریتی آبادی والا علاقہ ہے۔ اس میں قریب پینسٹھ فیصد مسلمان ہیں اور مزاحمتی تحریک والے علاقوں میں مسلم آبادی کا تناسب تقریباً سو فیصد ہے۔ نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی سخت گیر اساسی جماعت راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) برسوں سے کشمیر کے زمینی حقائق تبدیل کرنے کی وکالت جاری رکھے ہوئے ہے۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آر ایس ایس کا دیرینہ پلان اب تکمیل کے قریب ہے۔ کشمیر میں مستقل رہائش اختیار کرنے کے قوانین سن 1927 میں لاگو ہوئے تھے۔ انہی قوانین کے تحت مقامی آبادی کو جائیداد کی خرید و فروخت، حکومتی محکموں میں ملازمت کے مواقع، یونیورسٹی میں داخلے اور بلدیاتی انتخابات میں حق رائے دہی جیسے حقوق حاصل ہیں۔

نئی قانون سازی سے بھارت کے کسی بھی حصے سے کوئی بھی شخص کشمیری علاقے کا رہائشی ڈومیسائل حاصل کر سکتا ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پچھلے پندرہ سال سے کشمیر ہی میں مختلف مقامات پر رہ رہے ہیں۔ شناخت نامے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں دیہاڑی پر کام کرنے والے تقریباً 1.75 ملین مزدور بھی لے سکتے ہیں۔

سات برس تک کشمیر میں ملازمت کرنے والے سرکاری ملازمین اور ان کے بچے بھی ڈومیسائل حاصل کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلا ڈومیسائل ریاست بہار کے ایک سینیئر بیوروکریٹ نوین کمار چوہدری کو جاری کیا گیا ہے، جو کئی برسوں سے کشمیر ہی میں تعینات ہیں۔ کشیری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبا بھی مقامی شناخت نامہ حاصل کر سکیں گے۔

ایک سیاسی تجزیہ کار صدیق وحید کے مطابق یہ قانون سازی اس نیت سے کی گئی ہے کہ نئی آبادکاری کا ایک سیلاب امڈ پڑے۔ مقامی آبادی کو بھی مستقل رہائشی ڈومیسائل کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ہو گا۔

ایک نوجوان انجینیئر نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے کہا کہ نوکری حاصل کرنے والے کو بھی نیا ڈومیسائل لانے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ مقامی آبادی کو نیا ڈومیسائل حاصل کرنے کے لیے سن 1927 سے مسلسل جاری کیا جانے والا مستقل رہائش کا اجازت نامہ (پی آر سی) جمع کرانے کا پابند بنایا گیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ اس نئی پیش رفت سے بھارت میں بسنے والے دو سو ملین مسلمانوں میں پریشانی کی نئی لہر پیدا ہو گی۔ ماہرین سماجیات کے مطابق یہ مسلمان ہی اصل میں بھارت کی سیکولر شناخت کو سنبھالے ہوئے ہیں اور ایسے اقدامات سے یہ شناخت مزید دھندلا جائے گی۔

اس تناظر میں امریکا کی سیراکُوز یونیورسٹی کے شعبہ انتھروپالوجی کی پروفیسر مونا بھان کہتی ہیں کہ نریندر مودی بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کی کوشش میں ہیں۔ پروفیسر بھان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ کشمیر میں اب ہندوؤں کی آبادکاری کے ایک نوآبادیاتی منصوبے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔