ہمیں بندر کی طرح نکلیں نہیں اُتارنی چاھیں

Taliban

Taliban

گُزشتہ ہفتے میں اپنے ایک دوست کے عزیز کی وفات پر اظہار تعزیت کیلئے کراچی گیا ہوا تھا جِس کے سبب کالم نہ لکھ سکنے پر اپنے تمام تر معزز قارئین سے معذرت خوا ہوں اور جب واپس لاہور آیا تو ایک بہت ہی پُرانے قاری کے ذریعے ایک جہادی جریدہ پڑھنے کا اِتفاق ہوا جِس میں طالبان کے کارناموں داستانوں کے علاوہ، افواجِ پاکستان و دیگر سرکاری وغیر سرکاری محکموں کے خلاف بھی اِنتہائی اشتعال انگیز لیکچرز اور طالبان کی اپنی اعلیٰ قیادتوں کے احکامات پرِنٹ تھے اِن سب پر میں نے ایک سرسری سی نظر دوڑائی مگر جب میڈیا کا ذکر آیا تو نظر جم گئی جِس کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوا کہ طالبان نے ایک مخصوص پلان کے تحت دبے لفظوں میں پاکستانی ذرائع ابلاغ کو بھی تباہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے جِس کا انکشاف اُنہوں نے اپنے ترجمان جریدے میں(میڈیا رازوں سے پردہ اُٹھتا ہے ) کے نام سے پرنٹ رپورٹ میں کیا ہے اِس رپورٹ میں مصنف کا نام عبیدالرحمٰن زبیر ظاہر کیا گیا جِس نے اپنی اِس رپورٹ میں معاشرے میں بڑھتی ہوئی تمام تر برائیوں کا ذمہ دار میڈیا کو ٹھہراتے ہوئے میڈیا کا کام امریکی و بھارتی ڈالرز کے عوض خبروں، تبصروں، تجریوں اور کالموں کے ذریعے لوگوں کو دین سے متنفر کرنا قرار دیا ہے۔

اے پی این ایس وحساس اداروں پربھی مختلف قسم کے الزامات کی بوچھاڑ کی ہے مگر پاکستان کے ایک بڑے اور معروف اشاعتی و نشریاتی ادارے اور اِس سے وابستہ لوگوں کے تو نام لیتے ہوئے کہاہے کہ اِن پراگندہ ذہنیت کے حامل لوگوں کا کام مسلمانوں کو گمراہ کرنا فحاشی، عریانی بے حیائی اور اباحیت کے چلن کو عام کرتے ہوئے لوگوں کے دِلوں سے خوفِ خُدا نکالنا ہے اور رپورٹ کے اختتام پر زمانہ قدیم میں مدینہ منورہ کے ذرائع ابلاغ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو مدینہ منورہ کے ذرائع ابلاغ کے بارے میں فرمایا گیا وہی آج کے سرکش اور دین سے باغی میڈیا کیلئے نافز العمل ہو گا جِس کے بعد اُس نے ایک آیت تحریر کر کے پاکستانی ذرائع ابلاغ تباہ کرنے اور اِس سے وابستہ معصوم جانوں کے ضیاء کا اشارہ کیا ہے جِس کا ترجمہ اُس نے یہ کیا ہے کہ، اور جو مدینہ میں غلط افواہیں اُڑانے والے ہیں باز نہ آئیں تو ہم آپ کو اِن کی (تباہی ) پر مسلط کر دیں گے پھِر تو وہ چند دِن ہی آپ کے ساتھ اِس (شہر )میں رہ سکیں گے اِن پر پھٹکار برسائی گئی جہاں بھی مِل جائیں پکڑے جائیں خوب ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں، جِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل ہی میں وہ شعبہ ذرائع ابلاغ اور اِس سے وابستہ رپورٹرز سے لے کر اینکرز تک کی پوسٹوں کے لوگوں کو نشانہ بنانے والے ہیں۔

Imran Khan

Imran Khan

خیر یہ پڑھنے کے بعد میں نے کھانا کھایا اور ٹیلی ویژن آن کیا تو طالبان مذاکرات کی گیتوں کے ساتھ ساتھ عمران خان صاحب و دیگر کے کا بیانات بھی نمودار ہو رہے تھے کہ حکومت سیز فائر کر کے طالبان کے دفاتر کھولے، یہ سُنتے ہی میں نے ٹیلی ویژن آف کیا اور اِس سوچ میں گُم ہو گیا کہ جو لوگ مسلمان قوم کو غیر مسلم سمجھ کر اُس کا قتل عام اور جریدے کے مطابق سب کے سب پاکستانی اداروں کو غیر مسلم ایجنڈے پر گامزن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مذاکرات کی کامیابی کے بعدوہ لوگ اِن لوگوں کے ساتھ جن کے پیارے اِن سے جنگ کی بھینٹ چڑھ چُکے ہیںجو خود کش دھماکوں میں یتیم ہو چُکے ہیں جو معذور ہو چکے ہیں جو اپنے گھر بار ہی نہیں بلکہ اپنا وطن بھی چھوڑ چُکے ہیں اُن کے ساتھ پُر امن طریقہ سے گُھُل مِل کر کیسے رہ سکیں گے ؟اب ایک میڈیا بچا تھا جِس نے عوام کو اِن کی طرف مائل کرنا تھا یہ لوگ اِس قسم کی نفرت بھری تحریروں کے ذریعے اُس کے دِل میں بھی نفرت کا بارود بھر رہے ہیں جِس کا مطلب ہے کہ اُن کے ہاں ہر کام کا حل صرف اور صرف بندوق ہے اور جِتنی طاقت وہ بندوق استعمال کرنے پر صرف کر رہے ہیں۔

اگر اِتنی طاقت و ذہانت وہ مثبت طریقہ سے استعمال کرتے یعنی کہ لوگوں کا قتل عام کرکے حکومت کو بلیک میل کرنے کی بجائے تبلیغ کے ذریعے لو گوں کے دِلوں میں اپنی محبت پیدا کرتے ہوئے اُنہیں اپنا مرید بنانے کے بعد اُنہیں اپنے ساتھ مِلاتے ہوئے ایک پُر امن احتجاج کے ذریعے صرف مقامی حکومت سے ہی نہیں بلکہ بین الا قوامی سطح پر بھی اگر کوئی مطالبہ کرتے تو آج نہ اتنے بے گُناہ پاکستانیوں کی جانیں ضائع ہوتیں اور نہ ہی کوئی غیر ملکی قوت اُن کے خلاف ہوتی اور آج جو لوگ اُنہیں چند ہزار شر پسندوں کا نام دے رہے ہیںوہی اُنہیں اٹھارہ کروڑ کی تعداد پر مشتمل اسلامی ایٹمی طاقت کے خطاب سے نوازرہے ہوتے مگر یہ سوچ تو شاید اُن کے قریب سے بھی نہ گُزری ہو اِسی ہی لئے تو وہ متذکرہ بالا جریدے کے مطابق ہر مسئلے کا حل زمین کو خون سے لال کرنا سمجھتے ہیں جِس کے سبب مذاکرات کی کامیابی کے بعد مُلک و قوم و حکمران سب ایک ایسی دلدل میں پھنس جائیں گے جِس سے نکلنا نا ممکن ہو جائے گا یعنی کہ یوں کھُلم کھُلے مذاکرات کی کامیابی کے بعد ایک طرف تو طالبان مظالم کے شکار لوگ اپنے بدلے خود لینے شروع کر دیں گے اور حکمرانوں کو اپنے پیاروں کی قتل عام میں ملوث سمجھتے ہوئے طالبان کی جگہ پھِر وہ خود کش دھماکے شروع کر دیں گے تو دوسری طرف خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہوئے اقلیتیں سراپا احتجاج بن جائیں گی۔

ملک کے اندر ایک خانہ جنگی کا ماحول جنم لے لے گا جبکہ تیسرا بڑا کام یہ بھی ہوگا کہ دُنیا میں کہیں بھی کوئی واردات ہوئی تو اُس کا الزام پاکستان پر عائد کر دیا جائے گا جیسا کہ ہمارا پڑوسی ملک اب کر رہا ہے کہ اگر اُسے پاخانہ بھی دیر سے آئے تو اُس کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مذاکرات کے بعد پھِر دُنیا کے تمام تر ممالک ایسا کرنے لگیں گے اور متحد ہو کر پاکستان پر مسلط ہونے کی کوشش کریں گے لہذا ہمیں دوسروں کو دیکھ کر بندر کی طرح اُن کی نکلیں نہیں اُتارنی چاہئیں یعنی کہ جیسے امیریکہ کرے ہمیں بھی ویسے ہی کرنے کی بجائے یا اُن کے اشارے پر آپریشن کرنے اور اُنہیں کے اشارے پر روکنے کی بجائے ہمیں اپنی سوچ سمجھ کے تحت ایک ایسی اینٹی ٹیررازم پالیسی بنانی چاہیئے کہ نہ کِسی آپریشن کی ضرورت پڑے اور نہ ہی کِسی کے قتل کی اور امن کا قیام بھی ممکن ہو جائے اِس کے ساتھ ہی اگلے کالم تک کیلئے اجازت چاہوں گا اپنا اور اپنے ملک و قوم کا بہت بہت خیال رکھیئے گا اور ماضی کی طرح اب بھی اپنی قیمتی آرا سے نوازتے رہئے گا میرے ای میل ایڈریس کے علاوہ آپ شام 6بجے کے بعد میرے موبائل نمبر 03143663818 پر بھی مُجھ رابطہ کر سکتے ہیں(فی ایمان ِللہ)۔

Mohammad Amjad Khan

Mohammad Amjad Khan

تحریر : محمد امجد خان